• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
یارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندییارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندییارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندییارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

یارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • شخصیات | انٹرویوز
  • یارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
یوپی کی جیت کے بعد اب 2024 تک پورا ملک مودی مودی — تحریر: صادق رضا مصباحی، ممبئی
مارچ 16, 2017
مہا لکشمی کا پل — تحریر: کرشن چندر
مارچ 16, 2017
Show all

یارم، حنیف رامے — تحریر: فرخ سہیل گوئندی

جن لوگوں کو میں نے سکول کے زمانے میں آئیڈیلائز کیا، اُن میں سے کئی نامور لوگ چند سالوں بعد میرے دوست تھے۔ دوست کی تعریف میرے نزدیک یہ ہے کہ جو آپ کا رازداں بن جائے۔ تعلق اور دوستی میں بہت فرق ہوتا ہے۔ خصوصاً سیاست دان سینکڑوں نہیں ہزاروں لوگوں کے قریب ہوتے ہیں لیکن اُن کے رازداں چند لوگ ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے دوستی کی تعریف سیاست دانوں کے حوالے سے بہت گہری بھٹی سے گزر کر ہوتی ہے۔ 1974ء میں، مَیں سکول کا طالب علم تھا، جب قبرص میں خانہ جنگی عروج پر تھی۔ لبنان اور قبرص، پاکستان سمیت عالمی خبروں میں سرفہرست موضوعات میں شامل تھے۔ انہی دنوں خبر آئی کہ قبرص میں ترک حکومت نے وزیراعظم ترکی بلند ایجوت کے حکم پر ’’امن آپریشن‘‘ کرکے ترک قبرصی عوام کو جاری خانہ جنگی سے نجات دلوا دی۔ اسلامی تاریخ میں سولہویں صدی کے بعد یہ پہلی عسکری کامیابی ہے جو کسی مسلمان قوم کے حصے میں آئی۔ تب بلند ایجوت میرے ہیرو بن گئے۔ چند سالوں کے بعد وہ میرے دوست ٹھہرے۔ اور ایسے دوست بنے کہ 1993ء میں وہ میری ذاتی دعوت پر اپنی اہلیہ راشان ایجوت کے ہمراہ پاکستان تشریف لائے۔ پھر وہ نائب وزیراعظم اور ایک بار پھر وزیراعظم بن گئے۔ دوستی میں کمی کی بجائے یہ دوستی بڑھتی چلی گئی۔ وہ مجھے انقرہ میں وزیراعظم کے دفتر کی چوکھٹ پر ریسیو کرتے اور اسی چوکھٹ پر الوداع کرتے، تمام پروٹوکول توڑ کر۔ میں کسی وزیراعظم کا بیٹا، وزیر یا کسی جماعت کا لیڈر نہیں کہ تعلقات اور تعارف وراثت میں ملے۔ میں ایک خوش نصیب انسان ہوں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب بلند ایجوت نے پاکستان آنے کا وعدہ کردیا تو میں نہیں چاہتا تھا کہ کراچی ایئرپورٹ پر صرف میرے جیسا ادنیٰ شخص اُن کا استقبال کرے۔ اس کے لیے جناب حنیف رامے کو کہا تو وہ میرے ساتھ اُن کا استقبال کرنے کراچی ایئرپورٹ گئے۔

حنیف رامے میری سیاسی جدوجہد میں میرے دوست بنے۔ اس وقت وہ سابق وزیراعلیٰ اور سابق گورنر رہ چکے تھے اور ایک کرائے کے مکان میں رہتے تھے۔ وہ وزیراعلیٰ جس نے پنجاب میں ہزاروں لوگوں کو گھر بنانے کے لیے زمینیں الاٹ کیں۔ کچی آبادیوں کو مالکانہ حقوق دے دئیے۔ ایک مرتبہ وہ میرے ہمراہ اسلام آباد تھے، وہاں اُن کے بیٹے جناب ابراہیم رامے کا فون آیا۔ ’’بابا، مالک مکان سے گھر خالی کروا لیا ہے۔ اب آپ دوسرے کرائے کے مکان میں آئیں گے۔‘‘ وہ صحافت بھی کرتے رہے۔ انہوں نے بحیثیت وزیراعلیٰ پنجاب، صحافیوں کو گھروں کا مالک بنا دیا لیکن اپنی ملکیت میں مکان نہ بنا پائے۔
وہ میرے یار تھے، بلکہ ترکی میں ایسے گہرے یار کو یارم کہتے ہیں، یعنی یاری کی آخری انتہا۔ حنیف رامے، میرے یارم مجھے بہت یاد آتے ہیں۔ جب وہ وزیراعلیٰ تھے، میں سکول کا طالب علم تھا، انہیں آئیڈیلائز کیا اور چند سالوں بعد میں اُن کے حلقۂ احباب میں شامل تھا۔ کتنے بڑے لوگ ہوتے ہیں، جن کو حنیف رامے کہا جاتا ہے۔ ایسے ہی نہیں بنتا حنیف رامے۔ ایک کٹھن سفر ہوتا ہے ایسے لوگوں کا، تب جاکر بنتا ہے حنیف رامے۔
اوائل جوانی میں حنیف رامے نے فیصلہ کیا کہ قرآن کا مطالعہ کیا جائے، قرآن فہمی۔ اس کے لیے وہ غلام پرویز مرحوم کے پاس تشریف لے گئے اور کہا کہ مجھے آپ سے قرآن سمجھنا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگر میں آپ کو قرآن سمجھانے بیٹھ گیا تو میں کچھ اور نہیں کرسکتا۔ جواب ملنے پر وہ مولانا مودودی مرحوم کے پاس چلے گئے۔ ادھر سے بھی ایسا ہی جواب ملا۔ پھر حنیف رامے اپنا شہر لاہور چھوڑ کر تین سال کے لیے کوئٹہ میں گوشہ نشین ہوگئے۔ عربی سیکھی، قرآن مجید کا انڈیکس بنایا اور تین سال اس کتابِ عظیم کو سمجھنے میں صرف کردئیے۔ کلامِ خدا کے راز پائے انہوں نے اس گوشہ نشینی کے دوران کہ کوئی خلل نہ ہو لوگوں سے ملاقات اور زندگی کے معاملات کے سبب۔
میرے یارم حنیف رامے، مصورانہ خطاطی کے بانی ہیں۔ صادقین سے بہت پہلے انہوں نے یہ صنف متعارف کروا دی تھی۔ اسم اللہ اور اسم محمدﷺ جو اُن کے برش اور رنگوں سے نقش ہوتے، وہ ہماری مصوری کی معراج ہے۔ اشاعت کاری اُن کا خاندانی پیشہ تھا۔ اپنے علم سے اس دانشور اشاعت کار نے علم وفکر اور سیاست میں انقلاب کی بنیاد رکھی۔ ’’البیان‘‘ کے نام سے انہوں نے ایسی کتابیں آج سے ساٹھ برس پہلے شائع کیں جو آج بھی بے مثال ہیں۔ عالمی ادب کے تراجم کروائے اور اس فکر کو عام کیا کہ انسانیت کی فکری، علمی اورادبی میراث مشترکہ ہے۔ روزنامہ نصرت جو بعد میں ہفت روزہ ہوگیا، اس جریدے کو پاکستان میں 1966-67ء کی انقلابی تحریک کی چنگاری کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ تب ذوالفقار علی بھٹو نے پی پی پی نہیں بنائی تھی۔ اُن دنوں ’’نصرت‘‘ نے مصر کے جمال عبدالناصر سے متاثر ہوکر اسلامی سوشلزم نمبر شائع کردیا جو ذوالفقار علی بھٹو کی سیاست کا عنوان ہوا۔ اسی ’’نصرت‘‘ نے سیاست میں مساوات کی اصطلاح بھی متعارف کروائی جو بعد میں پاکستان پیپلزپارٹی کا بنیادی فلسفہ بنا۔ ذوالفقار علی بھٹو، مسلم لیگ کے اندر اپنا دھڑا بنانا چاہتے تھے جبکہ حنیف رامے اور دیگر ترقی پسندوں نے انہیں ایک نئی جماعت بنانے کی ترغیب دی۔ جریدہ نصرت کا اسلامی سوشلزم نمبر اس نئی پارٹی کا درحقیقت فکری دروازہ ہے، جسے ذوالفقار علی بھٹو شہید نے انگریزی مین ترجمہ کروا کر پڑھا۔ اور یوں پاکستان میں پہلی عوامی اور ترقی پسند جماعت کی بنیاد پڑی۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے فیصلہ کیا کہ اپنا روزنامہ نکالا جائے۔ ڈاکٹر مبشر حسن اس منصوبے کے مالی انچارج بنے۔ اس وقت طے ہوا کہ نئے اخبار کے لیے دس لاکھ اکٹھے کیے جائیں تو اخبار شروع کیا جاسکتا ہے۔ ڈاکٹر مبشر حسن نے صرف ایک لاکھ دے کر حنیف رامے مرحوم سے کہا کہ حنیف ایک لاکھ میں مساوات نکال کر دکھائو۔ بس پھر مساوات ایسا نکلا کہ بڑوں بڑوں کے دم گھٹ گئے اور عوامی آواز پہلی بار ایک عوامی اخبار روزنامہ مساوات کے ذریعے سامنے آئی۔
ہم دونوں میں کتنی دوستی تھی، اس کی ایک مثال یادگار ہے۔ 1993ء میں پارٹی نے اُن کو انتخابات میں حصہ لینے کے لیے ٹکٹ التوا میں ڈالے رکھا۔ کئی فیصلے ہوئے۔ آخری فیصلہ یہ ہوا کہ وہ لاہور میں صوبائی سیٹ پر جناب اعتزاز احسن کے نیچے الیکشن میں حصہ لیں گے، مگر ٹکٹ جاری کرنے میں لیت ولعل سے کام لیا جاتا رہا۔ میں نے جناب حنیف رامے صاحب سے کہا کہ جب تک چیئرپرسن بے نظیر بھٹو کے دستخطوں سے جاری ٹکٹ آپ کے ہاتھ نہیں آجاتا، آپ نے انتخابی مہم کا آغاز نہیں کرنا۔ آپ کو زبانی کہہ دیا گیا ہے جو کافی نہیں۔ رات کے اڑھائی بجے تھے۔ اُن کے آنکھوں میں آنسو آگئے اور انہوں نے اپنی بیگم جوائس رامے کو گھر کے اندر سے لان میں بلا کر کہا:
Look he is just like me, he is ready to jump in any difficult situation like me.
پھر مجھ سے مخاطب ہوکر کہا: We’ll live and die together.۔ یہ وہ الفاظ ہیں جو ایک دوست ہی کہہ سکتا ہے۔ 1993ء میں سارے لاہور ضلع میں پی پی پی ہار گئی۔ حنیف رامے جیت گیا۔ کارکنوں نے ذوالفقار علی بھٹو کے اس دانشور لیڈر ساتھی کی ایسی انتخابی مہم چلائی کہ جس نے 1970ء کے انتخابات کی یاد دلا دی۔ اور مجھے یاد ہے جب سارے لاہور میں پی پی پی کی شکست، شکست، شکست کی اطلاعات آ رہی تھیں، جی ٹی روڈ پر حنیف رامے مرحوم کے انتخابی حلقے کی گلیوں میں یہ نعرہ لگ رہا تھا:اے کیہہ رولا پے گیا، رامے سیٹ لے گیا۔
اس جہانِ فانی سے رخصت ہونے سے پہلے انہوں نے ایک معرکۃ الآراء کتاب لکھی، ’’اسلام کی روحانی قدریں، موت نہیں! زندگی‘‘۔ بس قدرت نے اُن کو اپنے ہاں بلانے سے پہلے اس کتاب کو اُن کے ہاتھوں تک پہنچانا تھا۔ اپنی تحریر کو کتاب کی شکل میں انہوں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا اور چند روز بعد چل دئیے۔ یہ لوگ ہیں جو انقلاب برپا کرتے ہیں، اپنی زندگیوں میں بھی اور دوسروں کی زندگیوں میں بھی۔ موت سے چند روز پہلے اُن کے ہاں تقریباً پانچ گھنٹے ملاقات ہوئی۔ ملک، افغانستان، عراق، دنیا موضوعِ بحث تھے۔ بار بار اپنے ہاتھ سے چائے بنا کر پیش کی۔ میں نے عرض کی کہ ملازم کو بلا لیں۔ کہنے لگے، نہیں، عاشق اپنے محبوب کا کام اپنے ہاتھوں سے کرتے ہیں۔ وہ میرے عاشق تھے یا کہ میں اُن کا عاشق، مجھے اس کا علم نہیں۔ بس میں اتناجانتا ہوں کہ وہ میرے دوست تھے۔یارم، حنیف رامے۔

مناظر: 218
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 12, 2022

پیغام ابراہیم


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ