علامہ محمداقبال کواللہ نےجوعزت اور مقبولیت دی وہ کم ہی کسی شاعرکےحصےمیں آتی ہے! اقبال نےاپنی شاعری میں مسلمانوں کی متاع گم گشتہ کوبازیافت کرنے کی سعی کی ہے! اقبال کی شاعری دراصل مسلمانوں کےدورعروج کانوحہ ہے! اقبال مسلمانوں کےزوال پرکُڑھتےہیں اوراکثران کالہجہ اس قدرتلخ ہوجاتاہےکہ طعنوں کاگمان ہوتاہے! وہ مسلم امہ کوایک دیکھناچاہتےہیں! جنگ عظیم کی تباہ کاریوں کےاثرات نےاقبال کےتصورقومیت میں شدت اورنفرت کےجذبات بھردیےتھے! یہ نفرت اس قدرشدیدتھی کہ مولاناحسین احمدمدنی علیہ الرحمہ کےیہ کہنےپرکہ ”فی زمانہ قومیں اوطان سےبنتی ہیں”ایسےاشعارکہلوادیےکہ جو ان کےشایان شان نہیں تھے!
اقبال کی شاعری اوراس سےپہلےشاعروں کی شاعری میں فرق یہ ہےکہ پہلےشاعر”رومانویت پسندی”کےدائرےمیں گھومتےتھےلیکن اقبال کےتجددنےشاعری میں”مذہبی رومانویت پسندی”کی بنیاد ڈالی! یہی وجہ ہےکہ اقبال کی شاعری وقتی طورپرمذہبی جذبات کوبرانگیختہ توکرتی ہےلیکن یہ جذبات عمل کی شکل اختیارنہیں کرپاتے! ماہرین اقبال کےلیےیہ سوال ایک معمہ ہےکہ اقبال کی ”رومانویت پسندی ”آخر”عملیت پسندی” کی شکل کیوں اختیارنہیں کرپاتی! شایداس کی ایک وجہ یہ بھی رہی ہوکہ اقبال برصغیرکی تحریکات کےمدوجزرسےمتاثرتوہوئےلیکن عملاکسی تحریک میں شریک نہیں ہوئےاورنہ ہی دوسرےآزادی پسندرہنماؤں کی طرح انہیں قیدوبندکی صعوبتوں سےگزرناپڑا!اپنےعلاوہ دوسرےمسلمانوں کووہ کردارکاغازی نہ بننےکاطعنہ دیتےہیں لیکن اگران کی اپنی شخصیت کامطالعہ کیجیےتومعلوم ہوتاہےکہ وہ خودبھی الفاظ کےغازی توتھےلیکن کردارکےغازی نہ تھے!
اسی طرح اقبال ماضی پرستی سےباہرنہیں آناچاہتے! ماضی کی شاندارروایات بیان کرتےہیں توان کاقلم جھومتاہےلیکن جب حال کی بات آتی ہےتوزبوں حالی کاحل پیش کرنےکی بجائےان کاقلم اکثرنوحوں اوربسااوقات طعنوں کااسلوب اپنالیتاہے!
اتحادعالم اسلامی کانظریہ ایک اچھی خواہش ہونے کےباوجود موجودہ قومی جمہوریتوں کےدورمیں اقبال کی شاعری کی نفی کرتامعلوم ہوتاہے! عجمیوں کی جوحیثیت آج عربوں میں ہےاگراقبال حیات ہوتےتوبہت ممکن ہےکہ اپنےاس نظریےسےرجوع کرکےوہ تمام اشعاراپنےدیوان سےحذف فرمادیتےجوعرب وعجم کےشیروشکرہونےکےحوالےسےاقبال نےکہے!