ساٹھ کی دہائی پاکستان میں انقلاب کی دہائی تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے 1966-67ء میں پاکستان میں پہلی عوامی تحریک کی قیادت کی۔ طلبا اور صنعتی مزدور اس عوامی تحریک کا ہراول دستہ تھا۔ انقلاب، استحصال، مزدور، محنت کش، کسان، سوشلزم، سامراج، جاگیرداری، سرمایہ داری، عوامی راج اور ایسے لاتعدادموضوعات اس دہائی کی سیاست کا عنوان تھے۔ جاری دہائی پاکستان میں ’’تبدیلی‘‘ کی دہائی ہے۔ استحصال کی جگہ ’’کرپشن‘‘، انقلاب کی جگہ ’’تبدیلی‘‘، عوامی حکمرانی کی جگہ ’’گڈ گورننس‘‘ اس جاری سیاست کا عنوان ہیں۔ اس سیاست کے دلہا جناب عمران خان ہیں جو انقلاب کی بجائے تبدیلی، استحصال کی بجائے کرپشن، عوامی حکمرانی کی بجائے گڈ گورننس اور عوامی تحریک کی بجائے دھرنوں کی قیادت کررہے ہیں۔ انہوں نے 2013ء کے انتخابات میں ایک مقبول جملہ کہا کہ ’’تبدیلی آئے گی نہیں بلکہ تبدیلی آگئی ہے۔‘‘ خوابوں کی مسافر نوجوان نسل اس جملے کے سحر میں عمران خان کے ساتھ ہوئی، جگہ جگہ، گھر گھر، اخبار، ٹیلی ویژن، ہرجگہ تبدیلی کی امیدیں بندھیں۔ کرپٹ سیاست دانوں، رہنمائوں اور حکمرانوں کے خلاف۔ ذرا آج دیکھیں تو معلوم ہو کہ ’’تبدیلی‘‘ کہتے کسے ہیں۔۔۔ فردوس عاشق اعوان، ندیم افضل چن، شاہ محمود قریشی، علیم خان، نذر محمد گوندل، اشرف سوہنا، صمصمام بخاری، شیخ رشید اور اِن جیسے جوق درجوق وفاداریاں ’’تبدیل‘‘ کرتے سیاسی رہنما۔ اسے کہتے ہیں ’’تبدیلی‘‘۔ اس تبدیلی میں ایک بڑا نام ہے، فردوس عاشق اعوان۔ ذرا اس خاتون کا سیاسی شجرہ نسب نکالیں، مسلم لیگ (ق) سے پی پی پی اور پھر پی پی پی سے ایک خاص مدت تک تبدیل ہونے کے عمل کے دس بیس ماہ میں اس رہنما نے کیسے بیانات داغے اور پھر کہیں جا کر آئی تبدیلی۔ جدید دنیا کی خبروں میں ہم پڑھتے ہیں، جنس تبدیل ہونے کی خبریں، مرد عورت کی جنس میں بدل گئی یا عورت مرد میں۔ یہاں ہم پڑھتے ہیں سیاسی رہبر کی تبدیلی۔ عمران خان کوکریڈٹ دینا پڑے گا کہ جو ان ’’تبدیلیوں کے رہنما ہیں‘‘۔ جوں جوں آئندہ انتخابات قریب آ رہے ہیں، ایسی لاتعداد فردوس عاشق اعوان جیسے رہنما ’’تبدیلی‘‘کی قیادت کریں گے۔ وفاداریاں تبدیل کریں گے۔ ان کا شروع سے ایجنڈا ہی ’’تبدیلی‘‘ ہے۔ ایک سے دوسرے جماعت تبدیل۔ شان دار تاریخ رکھتے ہیں یہ تبدیلیوں کی۔ تب سے جب عمران خان نے ابھی سیاست کے میدانِ کارزار میں قدم بھی نہیں رکھا تھا۔ یہ کس کو تبدیل کریں گے؟ نظام کو؟ یا کہ عمران خان کو۔ ایسا تبدیل کریں گے عمران خان کو یہ راہبر کہ خان صاحب کو ہوش ہی آجائے گا۔ پھر کہیں گے، لائے ہم ’’تبدیلی‘‘۔ سیاسی جماعتوں میں تبدیل ہونے کی تاریخ رکھنے والے سینکڑوں فردوس عاشق اعوان۔ اگر اقتدار کی ہوا نے رخ بدلا، تو پھر اور کئی تبدیل ہوں گے۔ کشمالہ طارق سے ماروی میمن تک، کون ہے جو ’’تبدیلی‘‘ کی تاریخ نہ رکھتا ہو۔
1946ء کے انتخابات سے 2013ء کے انتخابات تک انہی رہبروں سے تاریخ بھری پڑی ہے۔ ملک خضر حیات ٹوانہ، متحدہ پنجاب کے پریمئر، گلی گلی اُن کے خلاف جلوس نکلتے تھے، انہی جلوسوں میں جو اُن کے خلاف کتا کتا کرتے گلے پھاڑ رہے تھے، انہی لوگوں نے پھر یہ نعرہ بھی لگایا، ’’تازہ خبر آئی ہے، خضر ہمارا بھائی ہے‘‘۔ یونینسٹ پارٹی راتوں رات مسلم لیگ کے پرچم کے سائے میں آئی اور یوں آئی کہ پہلی بڑی تبدیلی پنجاب کے جاگیرداروں کے غول کے غول اس تبدیلی کا ہراول دستہ تھے۔ انہی میں شاہ محمود قریشی کے دادا سے لے کر معروف لغاریوں تک سب شامل تھے۔ عمران خان اب اسی تبدیلی کو عام کررہے ہیں۔ وقت کی تبدیلی کے ساتھ بڑے بڑے نام تبدیل کریں گے اپنی سیاسی جماعتیں۔ ذرا سوچیں ’’تبدیلی‘‘ کے ان معروف رہنمائوں کے ساتھ ایمان دار عمران خان اور پھر سوچیں کہ کیسے لائیں گے عمران خان ’’تبدیلی‘‘۔ پنجاب کے لاکھوں نوجوان خصوصاً نوجوان خواتین، جن کے سہانے خواب جڑے 2013ء کے انتخابات کے سبب، ایک شفاف، انصاف پر مبنی سیاست پر جب اُن کے خواب بکھریں گے، تو کون ذمے دار ہوگا؟ صرف وہ جس نے ان ’’تبدیلی کے سرخیلوں‘‘ کے لیے اپنی جماعت کے دروازے کھول دئیے۔ جن لوگوں کے خلاف پنجاب کے نوجوانوں نے ایک گمنام جماعت پاکستان تحریک انصاف کو پاکستان کی یکایک مقبول جماعت بنا دیا، انہی لوگوں کو عمران خان اپنی پارٹی کی قیادت کا سہرا پہنا رہے ہیں۔ اس سماج کے ہیرو ولن بھی ہیں اور ولن ہی ہیرو۔ جس سماج کی سیاست میں کرپشن کو بڑے سیاسی مقدمے کے طور پرپیش کیا جائے اور کروڑوں انسانوں کے معاشی استحصال کو بھلا دیا جائے، کیا ایسا سماج بدل سکتا ہے۔ ایسا سماج جہاں کل کے ولن آج کے ہیرو بن جائیں۔ جہاں عوامی حکمرانی کے فلسفے سے بڑا فلسفہ ’’گڈ گورننس‘‘ پیش کر دیا جائے۔ کیا طاقت رکھے گا یہ سیاسی فلسفہ؟ کیا اِن چھوٹے طبقات کی معاشی، سماجی زندگیاں کرپشن اور گڈ گورننس کے فلسفے سے بدل جائیں گی؟ جی چاہتا ہے کہ ایک پوسٹر شائع کروں اور سارے ملک کی دیواروں پر چسپاں کردوں، جس پر لکھ دوں، ’’تبدیلی کی پہچان، فردوس عاشق اعوان‘‘ اور ان کی تین حکومتوں کے ادوار کی تصاویر ہوں۔ چودھری پرویز الٰہی اور فردوس عاشق اعوان، آصف علی زرداری اور فردوس عاشق اعوان۔ اور اب عمران خان اور فردوس عاشق اعوان۔ اسے کہتے ہیں ’’تبدیلی‘‘۔ واہ عمران خان صاحب، کتنے خوب صورت لگتے ہیں آپ،فردوس عاشق اعوان کے ہمراہ بیٹھے۔ اور ایسے لاتعداد رہبر جو آج کل آپ کے اردگرد اکٹھے ہورہے ہیں۔ کتنے بھولے ہیں وہ لوگ جو یہ دلیلیں دیتے ہیں کہ ایسے لیڈر پی ٹی آئی کی پچھلی صفوں میں بیٹھیں گے۔ بھولے لوگ، یہ ہی اگلی سیٹوں پر بیٹھیں گے۔ بلکہ انہی کے پاس پاکستان تحریک انصاف کا سٹئیرنگ ہوگا۔ ’’انقلاب کا پہچان، فردوس عاشق اعوان۔ تبدیلی کا نشان، فردوس عاشق اعوان۔‘‘ ذرا تصور کریں اگر قائد تحریک انصاف جناب عمران خان اس ملک کے وزیراعظم ہوں اور اُن کی کابینہ میں فردوس عاشق اعوان، نذر محمد گوندل، شیخ رشید، اشرف سوہنا، علیم خان اور یہ سب ’’انقلابی‘‘ ہوں تو کیسے بدلے گا پاکستان۔۔۔
شاباش عمران خان، لگے رہو، مگر ایک کریڈٹ آپ کو ضرور جاتا ہے کہ آپ نے تاریخ کا پہیہ تیزی سے آگے بڑھایا اور اُن خوابوں کو چکناچور کردیا جو سراب سے ابھرے۔ اور وہ وقت بھی دور نہیں بقول فیض ؔ:
یہ ہر ایک کی ٹھوکریں کھانے والے
یہ فاقوں سے اکتا کے مر جانے والے
یہ مظلوم مخلوق گر سر اٹھائے
تو انسان سب سرکشی بھول جائے
یہ چاہیں تو دنیا کو اپنا بنا لیں
یہ آقائوں کی ہڈیاں تک چبا لیں
کوئی اِن کو احساسِ ذلت دلا دے
کوئی اِن کی سوئی ہوئی دُم ہلا دے