پانامہ کے ایشو کو ایک سال سے زائد عرصہ ہوچکا ہے۔ حکومت اور حکومت مخالف سیاسی دھڑے سیاسی اور قانونی کشمکش کا شکار ہیں۔ کچھ لوگ اسے قانونی مسئلہ قرار دیتے ہیں اور کچھ لوگ سیاسی، بنیادی طور پر یہ مسئلہ سیاسی اخلاقیات کا ہے۔ ایک جمہوری ملک میں ایسے بحرانوں کو قانون کی جنگ کی بجائے سیاست کے میدان میں حل کیا جاتا ہے۔ افسوس، ہمارے ہاں یہ روایت ابھی جنم ہی نہیں لے سکی، لہٰذا ایسی توقع لگانا ایک یوٹوپیائی خواہش ہے۔ حکومت مخالف جماعتوں خصوصاً پاکستان تحریک انصاف کا یہ کہنا ہے کہ حکومت کا خاتمہ لازمی ہے۔ وہ اپنے حمایتیوں کو یہ باور کروا رہی ہے کہ حکومت بدلی تو تبدیلی کا آغاز ہوجائے گا۔ دھڑوں میں بٹی صحافت بھی اسی رویے کا شکار ہے جو سیاسی دھڑے اپنائے ہوئے ہیں۔ عمران خان کی قیادت میں ’’تبدیلی‘‘ کا خواب دیکھنے والے کالم نگار اور ٹیلی ویژن سکرینوں پر متعارف ہونے والے ’’سینئر تجزیہ نگار‘‘ بھی اس کو ’’تبدیلی‘‘ کا ہراول دستہ دیکھتے ہیں۔ جبکہ نوازشریف حکومت سے مستفید ہونے والے اسے پاکستان کے خلاف سازش اور 1977ء کے سیاسی بحران جیسا قرار دیتے ہیں جو ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے دوران، انتخابات کے بعد پیدا ہوا جس میں تمام سیاسی جماعتیں ایک طرف اور بھٹو حکومت ایک طرف تھی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اپریل 1977ء میں مشترکہ پارلیمنٹ کے ایک اجلاس میں اسے غیرملکی سازش قرار دیا تھا اور امریکی سفارت خانے کے ایک اہلکار کی دوسرے اہلکار کے ساتھ ٹیپ کی گئی گفتگو کا حوالہ بھی دیا تھا جس میں لاہور میں متعین یہ سفارت کار دوسرے اہلکار کو کہہ رہا تھا کہ “Party is over.”۔ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو نے اپنی اس تقریر میں تفصیل کے ساتھ غیرملکی سازش یعنی امریکہ کا ذکر کیا کہ کیسے ڈالر کی غیرقانونی آمد کے بعد اس کی قیمت گر گئی۔ بعد میں جب انہی دنوں امریکی وزیرخارجہ سائرس وانس نے وزیراعظم کو ’’معاملات حل‘‘ کرنے کے لیے خط لکھا تو وہ امریکی وزیرخارجہ کا یہ خط لے کر راولپنڈی راجہ بازار آگئے۔ اس روز حکومت مخالف انتخابی اتحاد (پاکستان قومی اتحاد) نے پورے ملک میں پہیہ جام کی اپیل کررکھی تھی۔ پورا ملک مکمل طور پر جام کردیا گیا تھا۔ تمام ٹریفک اپوزیشن کی اپیل پر روک دی گئی تھی۔ وزیراعظم ایک کھلی جیپ میں بیٹھ کر خط لہراتے ہوئے سرِبازار آگئے اور تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مجھے معلوم ہے کہ پہیہ جام کی اصطلاح کہاں سے آئی ہے (اشارہ سی آئی اے کی طرف) کہ اُس نے ایسے ہی چلی کے منتخب رہنما الاندے کے خلاف تحریک اور پھر پہیہ جام کروایا۔ ذوالفقار علی بھٹو نے اسے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ میں امریکی سامراج کے سامنے ہتھیار نہیں ڈالوں گا۔ مگر یہ حکومت اس وقت تک اپوزیشن کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کرچکی تھی اور تقریباً بائیس مذاکرات کے بعد حکومت اور اپوزیشن معاہدہ کرنے میں کامیاب ہوگئی اور جب دونوں کامیاب ہوئے، جنرل ضیا نے اپنا کام دکھا دیا۔ پورے ملک میں مارشل لاء لگا دیا گیا اور سب نظام چلتا کیا، جسے بعد میں ’’اور لائن کٹ گئی۔۔۔‘‘ نامی کتاب نے ایک عنوان دے دیا۔
لیکن آج ایسا نہیں ہے۔ موجودہ وزیراعظم کے خلاف کوئی امریکی سازش کارفرما نہیں، اُن کی حکومت کو Destabilize کرنے کے لیے اُن کے خلاف غیرملکی فنڈز نہیں آرہے، کسی غیرملکی سفارت خانے کے اہلکار اُن کی حکومت کو توڑنے کی سازش میں نہیں۔ اور مختصراً ، وہ ذوالفقار علی بھٹو نہیں، وہ نوازشریف ہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو، جنگ ستمبر میں اسرائیل کے خلاف شام کے ساتھ کھڑے تھے، قبرص کے مسئلے پر یونان کے خلاف ترکی کے ساتھ کھڑا تھا،ایٹمی منصوبہ بندی کررہا تھا، کسانوں کو زمینیں دے رہا تھا، مزدوروں کو حقوق دے رہا تھا، سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کے خلاف کھڑا تھا، رومانیہ کے چائو شسکو کے ساتھ مل کر سربراہ اسلامی کانفرنس کی طرح تیسری دنیا کی سربراہ کانفرنس کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ ذوالفقار علی بھٹو کوئی مِل نہیں لگا رہاتھا اور نہ ہی بیرون ملک سرمایہ منتقل کررہا تھا، نہ ہی اس کے دو بیٹے اور دو بیٹیاں ولایت میں کاروبار اور فلیٹ خرید رہے تھے۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا کہ وہ جدی پشتی امیر ہے حالاںکہ اس کا دادا بھی جاگیردار تھا اور وہ پاکستان کے پسے ہوئے عوام کے ساتھ کھڑا تھا۔ وہ World Financial Capitalism کا نمائندہ نہیں تھا۔ وہ ویت نام، چین، چلی، کانگو، مصر، فلسطین، لبنان اور دیگر عالمی سوشلسٹوں کے ساتھ کھڑا تھا۔ اس کا وزیر خزانہ پاکستان کے سرمایہ داروں کے بینک، انشورنس کمپنیاں قومیا رہاتھا اور آج کا وزیر خزانہ اس کے برعکس ہے۔ ذوالفقار علی بھٹو کے رشتہ دار حکومت میں شامل نہیں تھے، آج کے وزیراعظم کے ستر (70) کے قریب رشتہ دار حکومت میں سیاہ وسفید کے مالک ہیں اور لاتعداد ذاتی دوست۔ ذوالفقار علی بھٹو کے خلاف جن لوگوں نے سیاسی اتحاد قائم کیا، اُن میں سب سے بنیادی کردار پنجاب کی نئی دکان دار کلاس (مرکنٹائل کلاس) نے ادا کیا۔ پنجاب بھر کے دکان داروں نے بھٹو کے خلاف تحریک میں مارکیٹوں اور بازاروں میں شٹر ڈائون کرکے بازار چلانے سے انکار کردیا تھا۔ میاں شریف مرحوم اپنے تمام چشم وچراغوں کے ساتھ اس بازار کے ساتھ ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے سرگرم تھے جو بھٹو کو حکومت ہی سے نہیں ہٹانا چاہتے تھے بلکہ سرعام موت کے گھاٹ اتارنے کا مطالبہ اور جدوجہد کررہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ بھٹو کو کوہالہ کے پُل پر سر عام پھانسی دی جائے۔ میاں نوازشریف کا جنم تو اسی مرکنٹائل کلاس کے بطن سے ہوا ہے۔ پنجاب کے دکان دار اور تاجر طبقے کا پہلا سیاسی نمائندہ۔ میاں نوازشریف پر ثابت ہوچکا ہے کہ انہوں نے سرمایہ باہر منتقل کیا۔ اسی الزام اور انہی دستاویزات پر (پانامہ لیکس) کئی حکمران مستعفی ہوچکے ہیں۔ کہاں ذوالفقار علی بھٹو اور کہاں محترم قبلہ میاں نواز شریف۔۔۔ نہ حالات وہ ہیں اور نہ ہی واقعات ایک جیسے۔ اور نہ ہی الزامات ایک جیسے۔ ایک عالمی سرمایہ سرمایہ داری کو کھٹکنے والا، دوسرا عالمی سرمایہ داری کو بڑھانے والا۔ وہ کالم نگار جو اسے 1977ء کے حالات جیسا قرار دے رہے ہیں، یہ وہی ہیں جو اس وقت بھی ادھر ہی کھڑے تھے۔ اس حکومت کے سربراہ کا دفاع کررہے ہیں جو پی این اے کو چندہ دیتا رہا ہے۔ بونے قلم کار اور بونے لیڈروہیں ہیں۔ اور کہہ رہے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت مخالف تحریک جیسی صورتِ حال۔ یہ بازی گر قلم کار پہلے اسلامی نظام کے دعوے دار تھے آج نیو لبرل ایجنڈے کے بطن سے جنم لینے والی ’’اقتداری جمہوریت‘‘ کے پاسبان بن کر سامنے آئے ہیں۔ تاریخ، واقعات اور صورتِ حال کو مسخ کرنا ان کا پیشہ اور مہارت بھی ہے۔ کہاں وہ لیڈر اور کہاں یہ لیڈر! کچھ بھی ایک جیسا نہیں۔ وہ لیڈر تمام تر حالات و واقعات کے بعد اپوزیشن پر یقین رکھتا تھا، عدالت پر یقین رکھتا تھا، اسی لیے سُولی پر جھول گیا۔ یہ کمرۂ امتحان میں جانے سے پہلے ہی رو پڑے،مشکل سوالات میں پرچوں (Exams) کے۔ عالمی سازشوں میں گھرا وزیراعظم اور عالمی سرمایہ داری کا نمائندہ وزیراعظم، فرق صاف ظاہر ہے۔ یہ سب کچھ حقائق و تاریخ درست کرنے کے لیے عرض کیا، اگر کسی کی دل آزاری ہوئی ہو تو معذرت خواہ ہوں۔