فارم ہاوس پہ ہو کا عالم تھا۔زاخو کی مو ت کویی عام واقعہ نہیں تھا۔ بٹ صاحب کو اس بات کی اطلاع مل چکی تھی۔ اور ا ب چھپن سوایکڑ پر محیط اس فارم پر پرندے بھی پر پھڑ پھڑانے سے پہلے سوچ رہے تھے۔زاخو کی رہائش گاہ کے سامنے پانی کا فلٹر پلانٹ جوں کا توں البتہ چل رہا تھا۔زاخو کو اس میں سے نکال کر اس کی صفائی کر کے اس کو دوبارہ چلا دیا گیا تھا۔۔ مشینوں کو اس بات سے غرض کہاں ہوتی ہے۔ کہ انسانوں پر اس وقت کیا بیت رہی ہے۔ انسان نے مشین کی ایجاد میں بڑی سہولت دریافت کی ہے۔ جہاں تخلیق کا معاملہ ہو ذہنی سکون مل جاتا ہے۔ جہاں تعمیر کا معاملہ ہو محنت سے چھٹکارہ مل جاتا ہے۔ یہ فلٹر پلانٹ اس وقت لگایا گیا تھا۔ جب زاخو کو درآمد کیا گیا تھا۔ ویسے تو یہ درآمد امریکہ سے ہویی تھی۔ لیکن اس کا تعلق کسی افریقی نسل سے تھا۔ بٹ صاحب کو “ازاوخ ” تو کبھی کہنا نہ آیا۔۔ لیکن وہ بگڑتے بگڑتے ” زاخو” نسل کا کتا بن گیا۔ زاخو کا قد ایسا تھا۔ جیسے کویی چار ماہ کا بچھڑا ہو۔ اور دم ایسی ۔ جیسے لیمور کی دم ہو۔۔ ایک دم لمبی نیچے سے دو دفعہ بل پڑتا تو آنکھیں دھوکا کھا جاتیں۔ ۔ ایک لمحے کو دیکھنے میں لگتا ۔۔ وہ کویی کمزور سا کتا ہے۔۔ عام سا۔۔۔ بس دم ذرا لمبی ہے۔۔ اور قد ذرا اونچا ہے۔ لیکن قد اونچا ہونے سے کیا ہوتا ہے ۔ لیکن اس کے قریب جانے سے پتا چلتا کہ وہ کویی عام سا کتا نہیں ہے۔۔ جیسے اونٹوں کی کہان اوپر کو نکلی ہوتی۔۔ ویسے اس کی نیچے کو تھی۔۔ گردن سے ذرا سے پیچھے۔۔ بس یہی ایک اضافی ماس تھا جو اس کے جسم پہ تھے۔۔ باقی جسم پہ ایسی پتلی کھال ۔۔۔ کہ ہڈیاں علیحدہ علیحدہ گن لو۔۔ پچھلی ٹانگیں ایسی جیسے کسرتی پہلوانوں کی ہوتی ہیں۔۔ بنی سنوری۔جن کے تمام پٹھے علیحدہ علیحدہ نظر آتے۔زاخو کا سارا لطف اس کے بھاگنے میں تھا۔۔ ویسے تو وہ ہمیشہ بٹ صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں سفر کیا کرتا تھا۔ لیکن کبھی کبھی اس کا من مچل جاتا تو وہ گاڑی سے اتر کر اچانک بھاگنا شروع کر دیتا۔ اور جیسے جیسے وہ بھاگتا بٹ صاحب کو گویا زندگی ملتی۔بٹ صاحب کہتے ” اس بھاگنے پر ہزار گھوڑے قربان”
فلٹر پلانٹ سے ویسے تو جتنا پانی روز فلٹر ہوتا تھا۔۔ اس سے آس پاس کی ساری بستیاں صاف پانی پی سکتی تھیں۔۔ لیکن زاخو سے محبت کا تقاضا تھا کہ اس فلٹر پلانٹ کو صرف زاخوکے لیے مخصوص کیا جایے۔۔ تاہم یہ سہولت ضرور رکھی گیی تھی۔ کہ باقی ماندہ جانور بھی اس فلٹر پلانٹ سے نکلنے والا پانی پی لیں۔جب زاخو اپنی ضروریات پوری کر چکا ہو۔ تا ہم باقی جانوروں کھانے پینے میں وہ تمیز اور اخلاقیات نہیں تھیں۔۔ جو زاخو میں تھی۔ وہ تو اس سہولت سے پانی پیتا تھا۔۔ کہ کہیں سے کتا نہیں لگتا تھا۔۔
اشفاق ہیوی کو لگتا تھا۔ یہ تمیز اور اخلاقیات نہیں تھیں۔۔ بلکہ اصل میں زاخو نے ساری عمر افریقہ میں ہی گذاری تھی۔ اور خوراک کی تنگی نے اسے بہتر کتا بنا دیا تھا۔جیسے غریبوں کے بچے امرا ءکے گھر جا کر تمیز دار ہو جاتے ہیں۔ اور کونے میں لگ کر دبکے ہوے اور سہمے ہوے بیٹھے رہتے ہیں ویسے۔ جو وہ تمیز کا مظاہرہ کرتا تھا۔ اس کا تعلق تمیز سے نہیں بلکہ احتیاط سے تھا۔ اس کو یہ بھی لگتا تھا۔ کسی نے اسے افریقہ کے کسی جنگل سے اسےمرے ہویے جانوروں پر موہنہ مارتے ہو ے پکڑا تھا ۔ اور امریکہ میں لے جا کر بیچ دیا تھا۔ جہاں بٹ صاحب کی نظر کرم اس پہ پڑ گئی۔ اور بس اس کی زندگی سنور گئی۔ کہاں افریقہ کے جنگل جہاں بھوک اور پیاس سے مرتا ہو گا۔ اور کہاں یہ انداز شاہانہ۔
“ارے بھایی جنگل میں کون بھوک اور پیاس سے مرتا ہے۔ جنگل میں آبادیوں والا قانون نہیں ہوتا۔ وہاں سب کے لیے ساارا کچھ ہوتا ہے۔ کویی کسی پہ پابندی نہیں لگاتا۔ جو چاہو سو کھاو”۔ شاہدمراد اسے بڑا سمجھاتا۔ لیکن اشفاق ہیوی کے دماغ میں یہ بات ایسے گھس گیی تھی۔ کہ نکالے نہیں نکلتی تھی۔
اشفاق ہیوی کو اس فارم پہ نوکری کرتے ہویے اڑتیس برس ہو چکے تھے۔ وہ بٹ صاحب کا واحد ملازم تھا۔ جو اڑتیس سالوں سے خدمت میں مصروف تھا۔ دن رات۔۔۔ آندھی ۔۔ طوفان۔۔ ہر موسم ۔۔ ہر رنگ میں اس کی خدمت گذاری میں کبھی کوئی کمی نہیں آیی تھی۔ فارم پہ سینکڑوں کتے آیے۔۔ سینکڑوں گھوڑے آیے۔ درمیان جب بٹ صاحب کو مور رکھنے کا شوق ہوا ۔۔ تو اشفاق نے ان کی قدر بھی ویسے ہی قدر کی جیسے وہ خود بٹ صاحب کی کرتا تھا۔ کیونکہ اس نے بچپن سے ہی سیکھ لیا تھا کہ مالک کی ہر چیز سے پیار کرتے ہیں۔ فش فارم دیکھنے والا تھا۔۔ اس طریقے سے اس نے بنایا تھا۔ کہ لطف آ جاتا دیکھتے ہی۔ بس مسلہ تھا۔ تو زاخو کا ہی تھا۔ اسے وہ ایک آنکھ نہیں بھا تا تھا۔
اس فلٹر پلانٹ اور زاخو کی رہایش گاہ کے درمیاں میں ایک سڑک تھی۔۔ اس سڑک پر یا تو افراد پیدل چلتے تھے یا جب بٹ صاحب آتے تو فارمز پر چلنے والی ایک مخصوص گاڑی چلا کرتی۔ جس پر چھت کی جگہ خالی تھی۔۔ اور بٹ صاحب نے سائے کی خاطر ایک درآمد شدہ کپڑے کی چھت بنوا رکھی تھی۔ زاخو کی رہایش گاہ کے بایں طرف باقی کتوں کے رہنے کے لیے گھر تھے۔ جو ایسے معلوم ہوتے جیسے کسی بڑے آدمی کے گھر کےساتھ سرونٹ کواٹرز ہوتے ہیں۔ سرونٹ کوارٹرز کے ساتھ گھوڑوں کی رہائش گاہیں تھیں۔۔ ان گھروں کے باہر ٹیوب ویلز تھے۔ جہاں گھوڑے اور کتے تازہ پانی سے باری بار ی نہای کرتے اور زاخوکے نہانے کے انداز دیکھا کرتے۔۔زاخو کے نہانے کا انتظام البتہ اس کے گھر پہ ہی تھا۔ اس کے نہانے کے لیے شاور لگایے گیے تھے۔ جہاں وہ اپنے اییر کنڈیشنڈ روم سے نکل کر آتا ۔۔ اور خوب نہاتا۔ اٹھکھیلیاں کرتا۔ اور اشفاق ہیوی کو غصہ چڑھاتا۔
اشفاق ہیوی جب اس فارم پر آیا تو تو بٹ صاحب کے پاس صرف تین سو ایکڑ زمین تھی۔ بٹ صاحب نے اشفاق ہیوی کی سابقہ نوکری کی شہرت کے کارن اسے اذن دیا کہ زمین کا رقبہ اور دہشت بڑھایی جایے۔ اشفاق نے پوری ذمہ داری کے ساتھ یہ ذمہ داری نبھایی ۔ اڑتیس سالوں میں رقبے میں بے تحاشا اضافہ ہوا ۔ اوردہشت اسی طور سے پھیلی۔۔ لطف اس امر کا تھا کہ بٹ صاحب کو اس اضافے کے لیے کویی خاص مالی وسائل نہیں خرچ کرنے پڑے۔ جیسے ایک بڑی مچھلی سمندر میں موہنہ کھول لیتی ہے۔ ویسے ہی اشفاق ہیوی نے بھی کھول لیا۔ پہلے پہل یہ سلسلہ فقط ٹھیکے اور حصے داری کے نظام کے تحت پنپا۔ پھر آہستہ آہستہ قبضے اور دھونس دھاندلی تک پہنچ گیا۔ اگر کبھی درمیان میں بٹ صاحب کے کویی دوست احباب انہیں خدا ترسی کا سبق دینے کا کوشش کرتے تو بٹ صاحب انہیں سمجھاتے کہ یہ تو عوام الناس کی بہتری کے لیے ہے سب۔ بھلا جیسا سکول میں نے یہاں بنا دیا ہے اس زمین کے اوپر اس میں جو سینکڑوں بچے پڑھتے ہیں ۔ یہ لوگ کبھی سوچ بھی سکتے تھے ایسے سکول میں اپنے بچے بڑھانے کو۔ اور جو ان کی لڑکیاں ایف اے میٹرک کر کے ہزاروں روپے تنخواہیں پانے لگ گیی ہیں۔ یہ بھلا کبھی ممکن ہوتا ۔یہ تو بھوک سے مرتے ہویے لوگ تھے۔ افلاس ان کے گھروں میں ناچتا تھا۔ دو وقت کی روٹی انہوں نے کبھی پیٹ بھر کہ کھائی نہیں تھی۔ اب لڑکیوں کے چہروں پر لالی دیکھو۔ ایسے لگتا ہے ساری کی ساری نئی بیاہی ہوں ۔
سکول واقعی کمال تھا۔ وہاں جا کے اگر اس کی جغرافیایی حدود کو دیکھتے تو ایسے لگتا جیسے لاہور کے کسی اے لیول کے سکول میں آ گیے ہوں۔بہترین کلاس رومز۔ کھلے کھلے گراسی پلاٹس۔۔ جدید طرز کے کھیل کے میدان ۔ ہاں بچوں کو دیکھتے تو سب کچھ غیر مطابق سا لگتا۔ ان کی وردیاں میلی ہوتیں۔۔ بستے بتا تے کہ سکول کے اوقات کے بعد ان میں کچھ اور بھی لادا جاتا ہے۔ جوتے وقت کی مار نہ سہنے کا عندیہ سنا رہے ہوتے۔ مکانات کے تبدیل ہونے سے ایک جغرافیائی حد سے دوسری حد میں جانے سے حالات بدلنا تو درکنار واقعات بھی نہیں بدلتے۔ انسان کا چہرہ جن مسائل کا ترجمان ہوتا وہ ان کی ترجمانی کرتا ہی رہتا۔ ان بچوں کے چہرے بھی ترجمانی کرتے ۔۔ کہ اس ماحول اور اس جغرافیہ سے ان کا کویی لینا دینا نہیں۔۔ جماعت در جماعت ترقی سے ان کی اپنی ترقی کا کویی واسطہ نہیں۔ ان دنوں میں جب گوری گوری چمڑیوں والے صاحب اور میمیں اس سکول کو دیکھنے آتے ۔ ان دنوں میں بھی وردیاں تو اجلی ہو جاتیں اور جوتے لشکنے لگ جاتے لیکن چہروں پر بے چارگی قایم رہتی۔
ایک بے چارگی اشفاق ہیوی کے چہرے پر بھی عود کر آئی تھی۔ جب سے زاخو فارم ہاوس پر آیا تھا۔ اس سے پہلےاشفاق ہیوی کو لگتا کہ وہ اس فارم کا مختار کل ہے۔ اور بٹ صاحب کی تمام تر کامیابیو ں کی وجہ بھی۔ بٹ صاحب بھی اس بات کا کھل کا اظہار کیاکرتے۔ کہ اشفاق ہیوی نے ان کی زندگی آسان کر دی تھی۔ بظاہر سارا کچھ ویے کا ویسا تھا لیکن بس اشفاق ہیوی ویسا نہیں تھا۔ اس کو محسوس ہوتا تھا کہ کسی دن زاخو فارم ہاوس سے نکلے گا واپسی پہ کویی بوڑھی سی عورت کا ہاتھ تھاما ہو گا۔ اور آ کر بٹ صاحب کو کہے گا کہ اس کی کچھ مدد کر دیں۔ اور بٹ صاحب نوٹوں کی گتھی ازاک کے آگے رکھ دیں گے کہ یہ لو اپنی مرضی سے دے دو ۔ جتنے بھی دینے ہیں۔ اور یوں اس کا یہ آخری استحقاق بھی چھن جایے گا۔ شاہد مراد اس کی یہ سب باتیں سنتا اور ہنستا رہتا۔۔۔ اس کو یہ سب مذاق لگتا۔
ایک دن تو حد ہی ہو گی۔۔ مراد فارم پہ پہنچا تو اشفاق ہیوی اپنی تہبند گھٹنوں سے اوپر اٹھا کر ۔۔ اپنی رانوں کو تیل لگا رہا تھا۔۔
“مراد دیکھ۔۔۔ میری رانیں زیادہ لشکتی ہیں یا ۔۔ زاخو کی”
دما غ خراب ہو گیا ہے تیرا؟ بھلا تیرا اور زاخو کا کیا مقابلہ ہے؟ وہ کتا ہے۔۔ کتا۔۔۔ ہیوی۔۔ تو ایک جیتا جاگتا انسان ۔۔ مراد ششدر تھا۔۔
” یہ سالا ۔۔ دو کوڑی کا افریقی کتا کیا خاک بھاگتا ہو گا۔۔ تو میری رانیں دیکھ۔۔ میں تجھے بھاگ کے دکھاوں گا۔ بھینس کی دم۔۔۔ سالا ۔۔ بیس بیس میل بھاگوں۔۔ سانس نا پھولے۔۔ اس کو دیکھ ۔۔ چار قدم بھاگ کے تھوتھنی باہر۔۔ وہاں۔ افریقہ کے جنگلوں میں موذی پڑا رہتا ہو گا۔۔ دھوپ ڈھونڈ کے۔۔ میں بھاگوں اس جاپانی گاڑی کے ساتھ۔ تو تیرے ایسے ڈراییور کو موت آ جایے۔ مجھے بھاگتے دیکھ کے۔ زاخو کیا چیز ہے۔۔ اتنی پتلی ٹانگیں اس کی۔۔ تیز ہوا میں ویسے ہی اڑ جایے۔۔ “
شاہدمراد کے پاس کہنے کو کچھ نہیں تھا۔۔ اس نے دانتوں تلے انگلیاں داب لیں۔۔۔ اور چپ کر کے اپنی گاڑی کی طرف ہو لیا ۔ فارم ہاوس پہ گاڑی چلاتے ہویے اس سارے راستے یہی خیال آتا رہا کہ شاید اشفاق ہیوی کہ عمر کے اس حصے میں پہنچ گیا ہے جہاں دماغی حالت اس درجے کی نہیں رہتی جیسی عالم جوانی میں ہوتی ہے۔
اتوار کو بٹ صاحب آیے تو شاہد مراد گاڑی چلاتے ہوے انجانے میں ہی ساتھ بھاگتے ہویے زاخو کی رانوں کو دیکھتا رہا۔ حتی کہ اس کا یقین پختہ ہو گیا کہ ہیوی اپنا ذہنی توازن کھو بیٹھا ہے۔
“سر جی۔۔۔ میرا خیال ہے۔ اشفاق بھائی کو اب آپ کو چھٹی دے دینی چاہیے ۔۔ وہ بزرگ ہوتے جا رہے ہیں۔۔ ” شاہد مراد نے بڑی ہمت مجتمع کی۔۔
“بیٹا۔۔۔ وہ اس عمر میں تم جیسے سو لوگوں پر بھاری ہے۔۔۔۔ ” بٹ صاحب نے ساتھ بھاگتے زاخو کو پیار سے دیکھتے ہویے کہا۔۔۔ ” اس کو کہو اگر اس کے دل میں بھی ایسا کوئی خیال آ رہا ہے تو نکال دے۔۔ ویسے بھی ۔۔ میں اس ہفتے عمرے کے لیے جا رہا ہوں۔۔ ساری ذمہ داری ہیوی کے سر پر ہی ہو گی۔ سو آنا جانا ہوتا ہے یہاں۔۔ ہزار لینے دینے ہوتے ہیں۔ “
بٹ صاحب ۔۔ عمرے پہ گیے اور خیر خیریت سے واپس بھی آگئے۔۔ حیرت انگیز طور پر بٹ صا حب کی غیر موجودگی میں اشفاق ہیوی کو جتنی زاخو کی فکر رہی۔۔ اتنی زندگی میں کبھی اپنے گھر والوں کی نہیں رہی ہو گی۔ شاہد مراد نے اس کو زاخو کا اتنا خیال رکھتے ہوے دیکھا۔۔ تو اس نے سوچا کہ کتنا احمق ہے وہ۔۔ بھلا ہیوی سے زیادہ فارم کا اور بٹ صاحب کا خیال کون رکھ سکتا ہے
عمرے سے واپسی پر فارم کا سارا عملہ ملنے گیا۔۔ بٹ صاحب نے سب کے گھر بار کی مکمل خیر خیریت پوچھی۔۔ ہیوی کے گھر والوں کے لیے تحفے تحایف دیے۔۔ جب وہاں سے رخصت ہونے لگے تو بٹ صاحب نے لگے ہاتھوں ہیوی سے پوچھا۔۔ زاخو خیر سے ہے نا۔۔ صبح چکر لگاوں گا فارم پہ میں۔۔۔
وہیں سے ۔۔۔ شاہد مراد کو لگا ۔۔ کہ پاگل پن کا دورہ پھر سے پڑ گیا ہے ہیوی کو۔۔ فارم واپسی تک وہ اس کے باؤلے پن پر مہر ثبت کر چکا تھا۔
صبح ہونے میں کویی دو گھنٹے ہوں گے۔۔ جب شاہد مراد کا دروازہ اشفاق ہیوی نے کھٹکٹایا ۔۔۔۔
شاہد اٹھ۔۔۔غضب ہو گیا ہے۔۔۔۔ زاخو۔۔ فلٹر پلانٹ کے اندر مرا پڑا ہے۔۔۔
شاہد کی جب آنکھیں ۔۔ کھلیں تو دوبارہ بند نہ ہو سکیں۔۔
حیرت انگیز طور پر۔۔ بٹ صاحب نے کویی زیادہ سوال و جواب نہیں کیے۔۔ اسی بات پر کہ زاخو کی رہایش گاہ کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔۔ انہوں نے خاموشی اختیار کر لی۔۔ اور فارم کی سیر کئے بغیر واپس چلے گیے۔۔۔
لیکن اگلے ہی دن ان کو دوبارہ آنا پڑا۔۔۔ سوموار کی صبح۔۔ جب اشفاق ہیوی باقی مانند کتو ں کی خوراک کی نگرانی کر رہا تھا۔۔ وہ اچانک اس پہ پل پڑے۔۔۔ اور چند لمحوں میں ہی اشفاق کا نرخرہ خون چھوڑنے لگا۔۔ جتنی دیر میں شاہد مراد وہاں پہنچتا۔۔۔ اشفاق اگلے جہان پہنچ چکا تھا۔۔
“بڑی درد ناک موت تھی۔۔۔ فارم پر بیٹھے ایک صاحب نے بٹ صاحب سے تعزیت کی۔۔ بڑے سال خدمت کی اس نے آپ کی۔۔ بڑا پرانا ساتھی تھا۔۔ ہمیں آپ کی تکلیف کا بخوبی اندازہ ہے۔۔ اللہ کے کام ہیں۔۔ بندہ کیا کر سکتا ہے۔۔۔”
“ہاں جی۔۔ مکافات عمل ہے۔۔ ” بٹ صاحب نے آہستہ سے کہا۔۔ اور اٹھ کر تدفین کے انتظامات دیکھنے لگ گیے۔۔۔
آصف اقبال۔۔۔
۱۹ جون۔۔ ۲۰۱۶ ۔۔۔۔۔شب بارہ بج کر چھ منٹ۔۔