یوم مئی، 1886ء میں شگاگو کے مزدوروں کی جدوجہد کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے منایاجاتا ہے۔ اس دن کو دنیا بھر میں مزدوروں کا دن قرار دیا گیا ہے۔ 131سالوں سے یہ دن مزدوروں سے ہمدرد ی اور اُن کے مسائل پر بات کرنے کی علامت کے طور پر پہچانا جاتا ہے۔
بندہ مزدور کے تلخ اوقات پر مئی میں عالمی پریس سے لے کر قومی پریس تک اَن گنت مضامین ،شذرے ، اور فیچر شائع ہوتے ہیں ،لیکن ان ساری فکری کاوشوں کا تعلق یورپ کے بعض مفکرین ہی کے نظریات سے جوڑا جاتا ہے، حالانکہ ہمارے اس خطہ کے بیدار مغز ،اور زمانہ شناس مفکر امام شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒنے بندۂ مزدور کے اوقات کی تلخی کو انقلابِ فرانس اور مارکس کی پیدائش سے بھی پہلے محسوس کرلیا تھا اور اس کے حل کے لیے باقاعدہ ایک نظام فکر بھی دیاتھا،جس کے ذریعہ ایک مضبوط عملی نظام بھی قائم کیاجاسکتاتھا ۔
اِمام شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒکی اِس فکری اور نظریا تی پہل اور سبقت پر معروف سکالر، ڈاکٹر احمد حسین کمال مرحوم لکھتے ہیں ۔
اِمام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ نے اپنی انقلابی فکر کا آغاز سماجی ارتقاء کے ذکر اور تعیّن سے کیا، سماجی ارتقاء اور فلسفۂ اِجتماع پر حضرت شاہ صاحب کے زمانہ (۱۷۵۰ء)تک کوئی واضح فکر یورپ میں بھی پیش نہیں کیا جاسکا تھا ۔مُطلق اِرتقاء کا نظریہ جسے ڈاروَنْ نے پیش کیا تھا وہ بھی 19ویں صدی میں پیش کیا گیا ۔ ڈاروَنْ کی پیدائش 1809ء کی ہے اور اس کی وہ کتاب جس میں حیاتیاتی اِرتقاء کا نظریہ پیش کیا گیا تھا وہ 1859ء میں شائع ہوئی تھی ۔ ہیگل کی پیدائش 1770ء کی ہے جبکہ اس کے افکار 1832ء میں اس کے شاگردوں نے 19جلدوں میں مُدوّن کر کے شائع کیے ۔اور کارل مارکس 1818ء میں پیدا ہوا ،اور اس کی تصنیف 1880ء کے بعد سامنے آئی۔ اِمام شاہ ولی اﷲ کی پیدائش 1703ء اور وفات 1762ء کی ہے ۔ فرانس کا مشہور فلسفی روسو اِمام شاہ ولی اﷲؒ کا ہم عصر ہے ۔اور اس کی موجودہ کتاب ’’سوشل کنٹریکٹ‘‘ بھی 1762ء میں لکھی گئی ،جس سال شاہ صاحب کا انتقال ہوتا ہے ۔چنانچہ شاہ صاحب کا سماجی اِرتقاء کا نظریہ کسی طرح بھی یورپ سے ماخوذ یا متاثر نہیں کہاجا سکتا اور اس کو قرآن و سنت سے ماخوذ شاہ صاحب کا انقلابی اجتہاد اور انقلابی فکر ہی قرار دیا جائے گا۔
(عصر حاضر اور امام شاہ ولی اﷲ کا اسلامی انقلابی فکر، ص 3)
ایسے حالات میں جب کہ یہ خطہ عالمی استعماری نظام کے بھاری پتھر تلے دبا کرّاہ رہا ہے ۔ مزدور ،کسان اور محنت کش طبقے روح و جسم کا رشتہ برقرار رکھنے میں ناکام ہورہے ہیں۔ سیاسی اور مذہبی قیادتیں اپنے گروہی مفادات کا’’لالی پاپ‘‘ لیے اطمینان و سکون کی زندگی گزار رہے ہیں، ایسے موقع پر مزدوروں ، کسانوں اور محنت کشوں کے حقوق پر اِمام شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒکے فکر کو نظر انداز کرنا اور کسی اخباراور رسالے میں ان کے اس نقطۂ نظر کو قوم کے سامنے پیش نہ کرنا ایک قومی غفلت ہے، جس کی ہماری مذہبی ، سیاسی اورادبی صحافت مرتکب ہو رہی ہے۔جب کہ امام شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒاپنی علمی اور فکری بلندی کی وجہ سے گزشتہ صدی سے یورپ میں بھی زیر بحث آرہے ہیں۔وہاں کی کئی ایک یونیورسٹیوں میں شاہ صاحب کے کام پر اہل علم نے دلچسپی کا اظہار کیاہے مثلاََ1963ء میں ہالینڈ کے ڈچ سکالر ڈاکٹر بالجن پاکستان آئے تھے ان کے سفر کا مقصد اِمام شاہ ولی اﷲؒ کے فلسفیانہ افکار پر تحقیقی کام کے لیے علمی مواد جمع کرنا تھا ۔انہوں نے اس مقصد کے لیے ’’شاہ ولی اﷲ اکیڈمی ‘‘ حیدر آباد میں بیس روز قیام کیا اور مولانا غلام مصطفٰے قاسمی مرحوم اور ڈاکٹر عبدالواحد ہالے پوتہ مرحوم سے علمی استفادہ بھی کیا، انہوں نے اپنی گفتگو میں کہا کہ ہندوستان و پاکستان کی تاریخ میں کوئی بھی انصاف پسند مؤرخ شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒ کو نظر انداز نہیں کرسکتا بلکہ دیانت دار مؤرخین کی یہ ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ گزشتہ ڈھائی سوسالوں کو شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒکا دور قرار دیں ۔جیسے حال ہی میں لویولا یونیورسٹی شگاگو کی پروفیسر مارشیا کے ہرمنسن نے امام شاہ ولی اللہ کی معرکتہ الاراء کتاب حجتہ اللہ البالغہ کا انگلش میں ترجمہ کرکے لندن میں اس پر سیمینار کرواکے دنیا بھر کے علمی حلقوں کو متوجہ کیا ہے۔
اِن حالات میں قومی مفکرین اور اس دھرتی سے پھوٹنے والے انسان دوست فکر کو نظر انداز کرکے مغرب سے درآمدشدہ فکر ہی کوہمارے مسائل کا حل قرار دینا قرینِ انصاف نہیں۔ اس خطے کی اپنی ایک نظریاتی شناخت ہے ہمیں اپنے چہرے پر کوئی ماسک چڑھانے کی ضرورت نہیں بلکہ اس خطے سے تعلق رکھنے والے زمانہ شناس حکیم، امام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے فکر کو محنت کش عوام تک پہچانے کی ضرورت ہے ۔لہٰذا اس موقع پرامام شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے (بنیادی انسانی حقوق اور سیاسی و اقتصادی حقوق سے متعلق )تصورات کوپاکستان کے معروضی تناظرمیں پیش نظر رکھنا انتہائی اہم اور وقت کا تقاضا ہے ۔۔ پاکستان وجود میں آیا تو یہاں کے معاشی وسائل پر ایک سو خاندان قابض تھے اور کروڑوں انسان ان کے بے دام غلام تھے ۔یہاں کی منڈیوں میں محنت کشوں کے خون اور پسینے کے سستے سودے ہوتے تھے ۔آزادی کے پندرہ سال بعد تمام جدید معاشی وسائل 22خاندانوں کے ہاتھوں میں سکڑ گئے ۔یہاں بیرونی قرضوں کے سبب صنعتی ترقی کے عمل کا ڈول ڈالا گیا تو وہ بھی چند خاندانوں کے رحم و کرم پر تھا ۔اس پس ماندہ ملک کے 95فیصدعوام کے مفادات کو پس ِ پشت ڈال کرہر وہ پالیسی اپنائی گئی اور ایسے قوانین مرتب کیے گئے جن کا مقصد مٹھی بھر خاندانوں کوسارے ملک کی دولت پر سانپ بنانا تھا ۔ پاکستان کے تمام قوانین اور پالیسیاں چند خاندانوں کی خدمت کے لیے بنائی گئیں اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ لگ بھگ تیس خاندان ملک کی 66فیصد دولت پر قابض ہو گئے۔ ان تیس اجارہ دار خاندانوں نے جاگیرار طبقہ اور امریکی سامراج کے عملی تعاون سے پاکستانی عوام کا خوب خون چوسا اور دولت کو بیرون ملک منتقل کرتے رہے ۔ سرمایہ داروں کی اس محفوظ ترین منڈی میں سرمایہ داروں نے دل کھول کر منافع کمایا اور محنت کشوں پر ہر قسم کا ظلم و تشدد روا رکھا گیا ۔آج پاکستان غریب ترین ممالک میں شمار ہوتا ہے یہاں پیداواری وسائل پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے ۔اقتدار اور تعلیم انہیں چند گھرانوں کی ملکیت ہیں 80فیصد آبادی دیہاتوں میں کسمپرسی کی زندگی گزار رہی ہے مزدور اور محنت کش روزگار سے محروم سارا سارا دن فٹ پاتھوں پر گزار دیتے ہیں۔ جنہیں ریگولر ملازمت حاصل ہے وہ کسی بھی طرح کے لیبر لاز سے فائدہ نہیں اٹھاسکتے وہ اپنی مجبوری کے باعث یکطرفہ قوانین کا شکار ہیں جبکہ حضرت شاہ ولی اﷲ دہلویؒ کے ہاں ضرورت مند مزدور کی رضامندی قابل اعتبار نہیں بلکہ اس کی محنت کی قیمت ادا کرنا ضروری ہے لیکن اس وقت ہمارے ہاں سرمایہ دار نہ نظام میں مزدوروں کی زندگی کی ڈور اسی جبری رضا مندی سے بندھی ہوئی ہے۔ آج ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم امام شاہ ولی اﷲ دہلوی ؒجیسے مفکر کے فکر پر منظم ہو کر محنت کشوں کے حقوق کے لیے جدوجہد کریں تاکہ معاشرے کو معاشی خوشحالی اور عدل و انصاف کا نظام مل سکے۔