• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
مولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شادمولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شادمولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شادمولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شاد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

مولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شاد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • مولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شاد
یمن کی تباہی کا ذمہ دار کون؟ — تحریر: عادل فراز
جون 21, 2017
بلاول بھٹو، بڑے گھروں میں رہنے والا ایک لیڈر — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
جون 24, 2017
Show all

مولانا مودودی اور سوشل میڈیا کی بحث — تحریر: محمد عباس شاد

       گزشتہ چند دنوں سے سوشل میڈیا پرسید مودودی کے حامی اورناقدین کےدرمیان ایک بحث جاری ہے جودوسوشل میڈیا کے مقبول اکاؤنٹس سے شروع ہوئی اورپھرپھیلتی چلی گئی کیونکہ سوشل میڈیا پرہرشخص اپنی بات کہنے میں آزاد ہوتا ہے لہذا اس آزادی اظہار رائے کے ہوتے ہوئے یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا گیا اور ہنوز جاری ہے.

      اس طرح کی بحث میں عموماً دونوں طرف سے روایتی طبقے جمع ہوجاتے ہیں اوراپنی پرانی عقیدتوں اورتعصبات کے محاذوں کو جنگ میں استعمال کیا جاتا ہے سو وہی طرز یہاں جاری ھے. ایک دوسرے پرالزامات واتہامات کے پتھراوراینٹ روڑے پھینک کردیوارکی اوٹ سے دیکھا جاتا ہے کہ فریق مخالف کو کتنا نقصان پہنچا ھے.

لیکن ھمارا خیال یہ ھے کہ اب سید مودودی کے بارے میں یہ طرزتبدیل ہونا چاہیے اوران کے فکروخیال، اس کے نتائج واثرات اورعواقب وانجام کے بارے میں ہماری قومی حالت،دینی اضمحلال اوراخلاقی پستی کے تناظر میں ازسرنوجائزہ لینے کی ضرورت ھے.

        کیونکہ جتنا سید مودودی کے طرزفکر،ان کے فہم اسلام اورفکری تعبیرنے مسلمان معاشروں، سادہ لوح عوام اور نوجوان نسل کونقصان اوردوسری طرف ان کے سیاسی نقطہ نظر، طرزِ سیاست نے سرمایہ داریت، جاگیرداری اورقومی سطح پراستحصالی طبقوں کو فائدہ پہنچایا ھے تاریخ میں اس سطح کا نقصان شاید آج تک مسلمانوں کو نہ پہنچ سکا ہو.

       ایسے ہی بین الاقوامی سامراجی طبقوں کے لیے بھی مسلمان معاشروں کوبرباد کرنے کے لیے سید مودودی کی فکر نے راستے ھموار کیے اس کی تازہ قسط افغانستان میں جہاد کے نتائج کے طور پرمسلمان وصول کررہے ہیں.

      اس کےعلاوہ انہوں نے تاریخ اسلام کے نام نہاد مطالعےاورجائزے سے اسلام کی سب سے پہلی اجتماعیت اور رسول اللہ  صل اللہ علیہ وسلم کی زندگی بھرکی محنت جماعت صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی ردائے تقدیس کوجس طرح سے چاک کیا ہےاوراسلام کی تاریخ اوراجتماعی فکرکوناقابل بھروسہ بنایاہے یہ کام سامراج اوراستعمار کی بڑی بڑی یونیورسٹیاں کھربوں ڈالر خرچ کرنے کے باوجود نہ کرسکیں.

      ھماری گزارش یہ کہ سید مودودی کومحض گالی دے کر ان کے اصل “کارناموں” پر پردہ نہ ڈالا جائے بلکہ ان کی زندگی اورمابعد کے ان کے سیاسی فکر اور دینی تفہیم کےاثرات ونتائج کا قومی وبین الاقوامی صورتحال کےتناظر میں تحلیل وتجزیہ کرنا بہت ضروری ھے.  پاکستان میں ان کے عقیدت مند اور ناقدین ہمیشہ سے رہے ہیں لیکن جس چیز کی کمی رہی ہے وہ گیرائی اور گہرائی سے  سید مودودی کی دینی وسیاسی فکر کا تجزیہ رہا ہے. ان کے عقیدت مندوں کا اجتماع دین بیزار طبقوں سے نفرت کے باعث ان کے کیمپ کا حصہ بنا اوران کے دینیات پرابتدائی پمفلٹس پڑھ کر اپنی عقیدتوں کو پروان چڑھاتا رہا لیکن سید مودودی کے علاوہ کسی دینی فکراور بصیرت کو پڑھنے اورسمجھنے کے لیے ٹائم نہ نکال سکا. اور دوسرا ناقدین کا طبقہ ہے جو تحقیق سے زیادہ نعرے اور تحقیرپر زیادہ انحصار کرتا ہے انہوں نے کبھی بھی سنجیدگی سے سید مودودی کی فکر پر کوئی تنقیدی اور تحقیقی کام نہیں کیا اسی لیے جماعت اسلامی نے جب چاہا ان مذھبی طبقوں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرلیا. ایم ایم اے ،ملی یک جہتی کونسل اس کی ناخوشگوار مثالیں ہیں ۔ ناقدین کے حلقے کو اس معاملے میں تحقیق و ریسرچ کے مروجہ اسلوب کو اپنانا چاہیے اور سید مودودی کے خلاف اپنے اصل میدان کا تعین کرنا چاہئیے تاکہ وہ ان خطرات سے قوم کو بچا سکیں جہاں سے ذہنی اور نظریاتی حملے ہوتے ہیں اور پھر ان طبقوں کو بھی پہچاننا پڑے گا جو سید مودودی کی فکر کو گولہ وبارود فراہم کرتے ہیں. کیا یہ محض اتفاق ہے کہ گزشتہ سترسالوں سے پاکستان کے تعلیمی اداروں، لائبریریز، سول اورعسکری اداروں پرایسےعناصر کا قبضہ ہے جو ہرمعاملے کا آخری علاج مودودی فکر ہی کو قرار دیتے ہیں یا خواہی ناخواہی اسی طرز فکر پر اپنے عملی نظام کی عمارت کھڑی کرتے ہیں۔ 

مناظر: 230
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ