ہم سب ہر وقت اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں ابھی آپ نے جب یہ تحریر پڑھنا شروع کی ہے، تب بھی آپ اپنے آپ سے کوئی نہ کوئی بات کررہے تھے ۔ ہم انسان سوچنے کی مشینیں ہیں جو کبھی بند نہیں ہوتیں۔اپنے بچپن سے ہی ہم ان چیزوں کے بارے میں سوچنا،تجزیہ کرنا،اسٹور کرنافیصلہ کرنا اور جائزہ لینا شروع کردیتے ہیں جو ہمارے سامنے واقع ہوتی ہیں۔ ہماری زیادہ تر خودکلامی لا شعوری ہوتی ہے،ہم اس سے واقف بھی نہیں ہوتے۔ بعض اوقات ہماری خودکلامی احساسات کی صورت میں ہوتی ہے جنہیں الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ کبھی کبھی یہ چنگاریوں اور پھلجھڑیوں کی صور ت میں ہوتی ہے جو لمبے عرصے تک قائم نہیں رہتیں اورجو کبھی ’آگ‘ نہیں پکڑتیں اور مکمل ،سمجھے جانیوالے خیال بن کے سامنے نہیں آتیں۔ ہماری خود کلامی بولے گئے الفاظ یا ان کہے خیالات کی صورت میں ہو سکتی ہے۔ یہ خود کلامی ہمارے احساسات، تصورات اور بے الفاظ جسمانی رد عمل کی صورت بن سکتی ہے۔
مائینڈ سائنسز کے ماہرین کا خیال ہے کہ آپ وہی بن جاتے ہیں جس کے بارے میں آپ سب سے زیادہ سوچتے اور اپنے آپ سے باتیں کرتے ہیں۔ یہ اپنے آپ سے بات چیت گویا آپ اپنے اندر کوئی پروگرام انسٹال کررہے ہوتے ہیں ۔آپ کی چھوٹی سے چھوٹی اور بڑی سے بڑی کامیابی اور ناکامی کا انحصار آپ کی پروگرامنگ پر ہی ہوتاہے۔ ہم اپنی بات چیت کے ذریعے کسی میں پروگرامنگ کررہے ہوتے ہیں یا کسی کو سنتے ہوئے پروگرامنگ لے رہے ہوتے ہیں۔ یہ کوئی کامیابی کا نظریہ نہیں ہے بلکہ ایک سادہ مگر طاقتور حقیقت ہے۔اس کا خواہش یا قسمت سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ہم اس پر یقین کریں یا نہ کریں اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ذہن اسی بات پر یقین کرتا ہے جو ہم اسے بار بار کہتے ہیں۔اور جو آپ اسے بار بار کہتے ہیں یہ وہی آپ کے لئے تخلیق کر دے گا۔اس کے پاس اور کوئی راستہ نہیں ہوتا۔
اپنے دماغ کو کسی نئے خیال کی تعلیم دینا یا پہلے سے موجود کسی پختہ خیال سے جان چھڑانا بہت مشکل ہے۔اس سے ہمیں یہ بات بھی پتہ چلتی ہے کہ آپ کسی عقیدے یا یقین سے جتنا زیادہ عرصے تک جڑے رہتے ہیں اس کو چھوڑنا یا بھولنا اتنا ہی مشکل ہوتا ہے۔ جتنی دیر تک آپ کسی خیال کو اپنائے رکھیں گے یہ وہ ہمیں اتنا ہی سچا لگے گا۔ ہمارے دماغ کے کنٹرول سنٹرز میں ہم ان نئے خیالات کو اکٹھا اور اسٹور کرتے رہتے ہیں جو ہمارے پرانے خیالات کو مضبوط کرتے ہیں اور جو اُن سے مطابقت نہیں رکھتے ان کو رد کر کے پھینک دیتے ہیں۔آپ کا تحت الشعور دن رات ہر وقت کام کر رہا ہے اور اس بات کو یقینی بناتا ہے کہ یہ آپ کو بالکل ویسا بنا دے جیسا آپ نے اسے لاشعوری طور پربتایا تھا۔اگر آپ نے یہ یقین کر لیا ہے کہ فلاں خوراک زیادہ عرصہ آپ کے لئے مفید نہیں ہے تو اس خوراک سے کم از کم آپ کو لمبے عرصے تک لئے فائدہ نہیں ہو گا۔آپ کے دماغ کا تحت الشعور وہی کرتا ہے جو آپ اور دوسرے اسے کرنے کے لئے کہتے ہیں۔اگرہم اپنی ذات کو بہتر انداز میں منظم کرنا چاہتے اور اچھے نتائج لانا چاہتے ہیں توہم کسی بھی وقت ایسا کر سکتے ہیں،جب آپ چاہیں!پہلا قدم اٹھائیے اور اپنی پروگرامنگ کو بدل دیجیے۔
یہ کتاب یہی سکھاتی ہے کہ ہم نے بات تو اپنے آپ سے بہر صورت کرنی ہے بہتر ہے کہ ایسی باتیں کی جائیں جس سے ہماری ڈویلپمنٹ بھی ہو اور دوسروں کو بھی فائدہ ہو۔ یہ کتاب واقعی لاجواب ہے۔
مثبت خود کلامی کی کیوں ضرورت ہے؟
گیارہ فیصد خود کلامی جوآپ کرتے ہیں وہ آپ کی شخصیت کی تعمیر کے مخالف ہوتی ہے زندگی کو بدل دینے والی اس کتاب میں آپ یہ دریافت کریں گے کہ کس طرح سادہ اور انقلابی خود کلامی کی حکمتِ عملی آپ کے ذہن کی منفی پروگرامنگ کو بدل کر آپ کی زندگی کو ایک نئی قوت سے بھر دے گی۔
1) اندرونی مسائل کے بیرونی حل عارضی نوعیت کے ہیں۔خود کلامی کا یہ پروگرام ہمارے روئیے میں ایک مستقل تبدیلی کی طرف لے جاتا ہے،کیونکہ آپ ان تمام پیغامات،جنہیں آپ کا دماغ وصول کرتا ہے، چاہے وہ تحریری ہوں، خاموش ہوں یا بولے گئے ہوں ، کو کنٹرول کرتے ہیں۔
2) خود کلامی کی بنیاد اس جدید سائنسی تکنیک پر ہے کہ ہمارا دماغ کس طرح معلومات کو قبول کرتا ہے۔اگر آپ کوئی مستقل تبدیلی لانا چاہتے ہیں توآپ کو یہ اس انداز سے کرنا چاہئے جیسے ہمارا دماغ کام کرتاہے۔
3) یہ نئی لفظ بہ لفظ پروگرامنگ ہمارے دماغ کے تحت الشعور کو بدل دیتی ہے جو ہمارے دماغ کا کنٹرول سنٹر ہے۔دماغ کی اس مخصوص زبان کو کوئی بھی کسی بھی وقت منفی پروگرامنگ کو مثبت پروگرامنگ سے بدلنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے۔ کیا ہماری زندگیوں کا کنٹرول ہمارے اپنے ہاتھوں میں ہے یا نہیں؟اور کیا اگر ہم اپنی زندگی کو کنٹرول کر سکیں یا کرنا چاہیں تو کیا غلط ہوگا؟ہمیں ایسا کرنے سے کیا چیز روکتی ہے؟اگر ہم واقعی کچھ بہتر کرنا چاہیں تو ہمیں اس راستے کو اپنانا چاہئے جس پر ہمیں چلنا ہے،ہر روز اپنی زندگی کو زیادہ خوشگوار اور کامیاب بنانا ہے، کون سی دیوار ہے جو ہماری زندگی میں حائل ہے؟
کتاب میں کیا ہے ؟
تصور کریں کہ آپ اپنی ذات پر اعتماد رکھتے ہوئے اپنی کامیابیوں پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں۔آپ خودکلامی کی تکنیک کو ذہن میں رکھ کر اور مندرجہ ذیل جملوں کو استعمال کر کے ایسا کر سکتے ہیں :
٭میں اپنے خیالات کا انتخاب خود کرتا ہوں اور کوئی خیال میری مرضی کے بغیر میرے ذہن میں داخل نہیں ہو سکتا؛
٭مجھ میں ٹیلنٹ، قابلیت اور مہارتیں ہیں اور میں نئی مہارتوں اور ٹیلنٹ کی تلاش میں ہوں؛
٭میں سننے اور اپنا نکتہ نظر بیان کرنے کا وقت نکالتا ہوں ،میں متحمل اور سمجھنے والا انسان ہوں اور مجھے ایسا کرنا اچھا لگتا ہے؛
٭میں اپنی توجہ کو ان باتوں پر مرکوز رکھتا ہوں جن پر میرا کنٹرول ہے،اگر میں کسی چیز کو کنٹرول نہ کر سکوں تو میں اسے قبول کر لیتا ہوں؛
٭میں جانتا ہوں کہ جو میں اپنے بارے میں یقین کرلوں گا وہ میں بن جاؤں گا اور میں اپنے بارے میں اچھا یقین کرتا ہوں۔
معروف ماہر نفسیات ڈاکٹر شیڈ آپ کو بتاتے ہیں کہ کس طرح مثبت خودکلامی کو اپنی ایک مستقل عادت بنایا جا سکتا ہے۔ اپنے آپ کو بہترین، محبت کرنے والی اور مثبت مدد دیجیے جو آپ اپنے بہترین دوست کو دے سکتے ہیں اور اپنی ذات سے یہ خصوصیات باہر نکالیے۔
کچھ مصنف کے بارے میں
ڈاکٹر شیڈ ہیلمسٹر ایک مصنف، محقق اور موٹیویشن کی فیلڈ میں لیکچرار ہیں، جنہوں نے اپنی بہترین کتابwhat to say when you talk to your self ’’مثبت خود کلامی کے کرشمے‘‘ میں انسانی رویوں میں تبدیلی کے حوالے سے ایک بڑی پیش رفت کی ہے۔زیر نظر کتاب میں ڈاکٹر شیڈنے انسانی رویوں اور روزمرہ زندگی سے متعلق خود کلامی کے تقریباََ دو ہزار سے زائد جملے بیان کیے ہیں جنہیں ہم فوری طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔ڈاکٹر شیڈself talk organization ’’سیلف ٹاک آرگنائزیشن‘‘ کے بانی ہیں جو اسکول، کالجز اور دیگر پیشہ ور اداروں کے لیے خودکلامی کے پروگرام متعارف کرواتی ہے۔انہیں ٹی وی اور ریڈیو پر مہمانِ خصوصی کے طور پر بلایا جاتا ہے اور وہ امریکہ میں سب سے زیادہ بلائے جانے والے مہمان ہیں۔
کتاب خریدنے کے لیے ہماری ویب سائٹ کے لنک پر جائیے یا درج ذیل نمبرز پر کال اور واٹس ایپ میسیج کیجئے. 03009426395
What To Say When You Talk To Your Self مثبت خود کلامی کے کرشمے
مناظر: 106