منہ زور مہنگائی اچھے اچھوں کے لیے مسائل پیدا کرنے لگی ہے!
یوں تو قیمتیں ہمیشہ سے بڑھتی آئی ہیں، لیکن اس کے تناسب میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے۔ ماجر ا یہ ہے کہ پہلے چیزوں کے دام ازبر ہوا کرتے تھے، اب تو جب بازار میں جائیے، ہر بار ایک نئے بھاﺅ میں چیز مل رہی ہوتی ہے، ایسے میں دام کیا خاک یاد ہوں گے۔ ہم معاشیات کے گورکھ دھندوں کی ’جان کاری‘ فقط اتنی ہی رکھتے ہیں، جتنا کہ شاید کوئی عام شہری کہتے ہیں کہ مہنگائی دراصل عوام کی معاشی استطاعت سے تعلق رکھتی ہے، جب عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو اور ان کی ’قوتِ خرید‘ سلامت ہو، تو پھر مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں! لیکن اگر آمدنی اُتنی ہی ہے یا اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی کہ جس تیزی سے اشیائے ضروریہ کے نرخ بلند ہو رہے ہیں، تو اس فرق کو ماہرین ’مہنگائی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ ملکی معیشت روز بہ روز پستی کی طرف گام زَن ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں نسبتاً معاشی استحکام سا محسوس ہوا، بہت سے لوگ اس ترقی کو ’مصنوعی‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گیارہ ستمبر 2001ءکے واقعات کے بعد کا ایک حادثاتی نتیجہ تھا، جب ملک سے باہر کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر روپیا بھجوایا، ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن کبھی قرضے نہ لینے اور روزانہ نہ جانے کتنے کروڑوں اور اربوں روپے کی ہیرا پھیری روکنے کے دعوے کرنے والے عمران خان 2018ءمیں وزیراعظم بنے، تو معاشی ابتری بڑھنے لگی، انھوں نے قوم سے خطاب کر کے کہا تھا ”آپ کو گھبرانا نہیں ہے!“ لیکن قوم کوئی جاگیردار اور وڈیرہ شاہی کی پروردہ سیاست دان تو نہیں ہے کہ نہ گھبراتی! مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجوں میں کسے ہوئے لوگوں کی تو چیخیں نکل گئیں! کہا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے ’مصنوعی‘ طریقے سے معیشت کو ’سہارا‘ دیا ہوا تھا! اچھا، اگر یہ سب کر کے عمران خان غیر ملکی قرضے نہ لیتے، تو ہمیں کچھ سمجھ میں بھی آتا کہ چلیے عوام کی اس تکلیف کا ملک کو کم سے کم یہ فائدہ تو ہو رہا ہے کہ ہم اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق ہونے لگے ہیں یا ہو جائیں گے، لیکن ایسا بھی تو نہیں ہوا ناں۔ اپنے جلسوں میں قرض لینے پر خودکُشی کرنے پر ترجیح دینے والے عمران خان نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح غیر ملکی قرض لیا اور شاید وہ (اپنے دعوے کے مطابق) یومیہ کروڑہا روپوں کی کرپشن بھی روکی ہوگی، لیکن نہ جانے اس کا فائدہ معیشت کو کیوں نہ مل سکا؟ اِن کی حکومت میں شاید چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی سے قوم پر نسل درنسل مسلط روایتی اشرافیہ نے اربوں روپے بھی نہ ڈکارے ہوں گے، لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا اور عمران خان کو پسند کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن کی ناکام ’تبدیلی‘ کے باعث ان سے خفا ہوئی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ وہ باقی دو روایتی موروثی سیاسی جماعتوں کے حامی ہوگئے۔
خیر، بات کہیں اور نکل جائے گی، ہم معاشی خود کفیلی کا ذکر کر رہے تھے کہنے کو دنیا جہاں کی نعمتیں ہمارے ملک میں موجود ہیں، لیکن اشیائے ضروریہ کے لیے محتاجگی کا یہ عالم ہے کہ بٹوارے سے پہلے پنجاب کا جو حصہ پورے ہندوستان کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا وہ آج صرف پاکستان کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود کوئی دیرپار حکمت عملی ہی موجود نہیں ہے، حکومتیں عدم استحکام اور سیاسی جوڑتوڑ میں اس قدر مصروف کر دی جاتی ہیں کہ انھیں قوم کی نیّا پار لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی، زراعت کیا، تعلیم وصنعت سمیت کسی بھی شعبے میں کوئی دوراندیشی ہی نہیں۔ شاید ملک کی اشرافیہ اور مخصوص خاندانوں کے بار بار اقتدار میں آنے والے وڈیروں اور جاگیرداروں کی مسلسل حکومت کے گروہی مفادات اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ عناصر ہر برسراقتدار جماعت میں پائے جاتے ہیں، ان کے اقتدار کا مقصد اپنی جاگیروں، صنعتوں اور مِلوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے پھر یہی لوگ ریاستی تعمیر وترقی کے کاموں میں اخلاص سے زیادہ اِس کے ذریعے ملنے والے اپنے ’کھانچے‘ اور مفادات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کے لیے پھر وہ معیشت کے گہرے نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے، کیوں کہ انھیں اپنی شوگر ملوں، فلور ملوں اور اندرون وبیرون ملک کاروبار جمانے ہوتے ہیں۔ اپنے خاندان اور کمپنی کے لیے ریاست سے مراعات اور چھوٹ لینی ہوتی ہیں، محصولات میں ڈنڈی مارنی ہوتی ہے، تاکہ امریکا، لندن اور دبئی وغیرہ میں موجود کروڑوں روپے کی جائیداد اربوں کی اور اربوں کے کاروبار کو کھربوں روپے کا بنا سکیں!
یہاں ملک کی فکر بھلا کس کو ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قومی خزانہ خالی ہوتا جاتا ہے اور ہم بار بار ’آئی ایم ایف‘، ’عالمی بینک‘ اور امریکا سمیت بعضے دوست ممالک کے پاس بھی خالی کشکول لیے پہنچ جاتے ہیں انتہا یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں واجب الادا قرضوں کا سود دینے کے لیے بھی باقاعدہ رقم مختص کی جاتی ہے اور پھر ہم خسارے درخسارے کرتے ہوئے مزید قرضوں کی آس پر جیے چلے جاتے ہیں، حالاں کہ غالب بھی کہہ گئے
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
قرضوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے، اور ہماری حالت تو اب ایسی ہے کہ ایک سے قرض لے کر دوسرے کی ادائی کرتے ہیں اور پھر دوسرے سے لے کر تیسری اور چوتھے سے لے کر پانچویں کی قسط بھرتے ہیں آج ہندوستانی روپیا ہمارے ڈھائی روپے سے زیادہ کا ہے 24 برس ہمارا حصہ رہنے والے بنگلادیش کا ٹَکا بھی سوا دو روپے سے متجاوز ہے، حد تو یہ ہے کہ بدترین جنگوں میں تباہ حال افغانستان کا سکہ بھی لگ بھگ سوا دو پاکستانی روپے کا ہے یہ بہت سادہ سی باتیں ہیں، لیکن کون سوچے، جنھیں سوچنا چاہیے، ان کے بچے، خاندان، کاروبار اور جائیداد سبھی کچھ ملک سے باہر ہے! باقی رہ گئے ہم جیسے عوام تو یہاں پورے پورے خاندان روزی روٹی کے گھن چکر میں ایسے پھنسا دیے گئے ہیں کہ ان کے پاس ایسی ”فضولیات“ پر بات کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے!