• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟
مستقل مزاجی کا امتحان پاس کریں
مئی 25, 2022
نیب قوانین میں ترمیم
جون 2, 2022
Show all

قومی خزانہ کون ڈکار رہا ہے؟

منہ زور مہنگائی اچھے اچھوں کے لیے مسائل پیدا کرنے لگی ہے!
یوں تو قیمتیں ہمیشہ سے بڑھتی آئی ہیں، لیکن اس کے تناسب میں ہر گزرتے وقت کے ساتھ تیزی آتی جا رہی ہے۔ ماجر ا یہ ہے کہ پہلے چیزوں کے دام ازبر ہوا کرتے تھے، اب تو جب بازار میں جائیے، ہر بار ایک نئے بھاﺅ میں چیز مل رہی ہوتی ہے، ایسے میں دام کیا خاک یاد ہوں گے۔ ہم معاشیات کے گورکھ دھندوں کی ’جان کاری‘ فقط اتنی ہی رکھتے ہیں، جتنا کہ شاید کوئی عام شہری کہتے ہیں کہ مہنگائی دراصل عوام کی معاشی استطاعت سے تعلق رکھتی ہے، جب عوام کا معیارِ زندگی بلند ہو اور ان کی ’قوتِ خرید‘ سلامت ہو، تو پھر مہنگائی کوئی مسئلہ نہیں! لیکن اگر آمدنی اُتنی ہی ہے یا اس رفتار سے نہیں بڑھ رہی کہ جس تیزی سے اشیائے ضروریہ کے نرخ بلند ہو رہے ہیں، تو اس فرق کو ماہرین ’مہنگائی‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
دوسری طرف ہم ایک عرصے سے دیکھ رہے ہیں کہ ملکی معیشت روز بہ روز پستی کی طرف گام زَن ہے۔ جنرل پرویز مشرف کے زمانے میں نسبتاً معاشی استحکام سا محسوس ہوا، بہت سے لوگ اس ترقی کو ’مصنوعی‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ گیارہ ستمبر 2001ءکے واقعات کے بعد کا ایک حادثاتی نتیجہ تھا، جب ملک سے باہر کے شہریوں نے بڑے پیمانے پر روپیا بھجوایا، ہم اِس بحث میں نہیں پڑتے، لیکن کبھی قرضے نہ لینے اور روزانہ نہ جانے کتنے کروڑوں اور اربوں روپے کی ہیرا پھیری روکنے کے دعوے کرنے والے عمران خان 2018ءمیں وزیراعظم بنے، تو معاشی ابتری بڑھنے لگی، انھوں نے قوم سے خطاب کر کے کہا تھا ”آپ کو گھبرانا نہیں ہے!“ لیکن قوم کوئی جاگیردار اور وڈیرہ شاہی کی پروردہ سیاست دان تو نہیں ہے کہ نہ گھبراتی! مہنگائی اور بے روزگاری کے شکنجوں میں کسے ہوئے لوگوں کی تو چیخیں نکل گئیں! کہا گیا کہ پچھلی حکومتوں نے ’مصنوعی‘ طریقے سے معیشت کو ’سہارا‘ دیا ہوا تھا! اچھا، اگر یہ سب کر کے عمران خان غیر ملکی قرضے نہ لیتے، تو ہمیں کچھ سمجھ میں بھی آتا کہ چلیے عوام کی اس تکلیف کا ملک کو کم سے کم یہ فائدہ تو ہو رہا ہے کہ ہم اب اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کے لائق ہونے لگے ہیں یا ہو جائیں گے، لیکن ایسا بھی تو نہیں ہوا ناں۔ اپنے جلسوں میں قرض لینے پر خودکُشی کرنے پر ترجیح دینے والے عمران خان نے بھی پچھلی حکومتوں کی طرح غیر ملکی قرض لیا اور شاید وہ (اپنے دعوے کے مطابق) یومیہ کروڑہا روپوں کی کرپشن بھی روکی ہوگی، لیکن نہ جانے اس کا فائدہ معیشت کو کیوں نہ مل سکا؟ اِن کی حکومت میں شاید چینی اور آٹے کی ذخیرہ اندوزی سے قوم پر نسل درنسل مسلط روایتی اشرافیہ نے اربوں روپے بھی نہ ڈکارے ہوں گے، لیکن نتیجہ صفر ہی نکلا اور عمران خان کو پسند کرنے والوں کی ایک بہت بڑی تعداد اُن کی ناکام ’تبدیلی‘ کے باعث ان سے خفا ہوئی، لیکن اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ وہ باقی دو روایتی موروثی سیاسی جماعتوں کے حامی ہوگئے۔
خیر، بات کہیں اور نکل جائے گی، ہم معاشی خود کفیلی کا ذکر کر رہے تھے کہنے کو دنیا جہاں کی نعمتیں ہمارے ملک میں موجود ہیں، لیکن اشیائے ضروریہ کے لیے محتاجگی کا یہ عالم ہے کہ بٹوارے سے پہلے پنجاب کا جو حصہ پورے ہندوستان کی غذائی ضروریات پوری کرتا تھا وہ آج صرف پاکستان کی ضروریات پوری کرنے سے بھی قاصر ہے زرعی ملک ہونے کے باوجود کوئی دیرپار حکمت عملی ہی موجود نہیں ہے، حکومتیں عدم استحکام اور سیاسی جوڑتوڑ میں اس قدر مصروف کر دی جاتی ہیں کہ انھیں قوم کی نیّا پار لگانے کی فرصت ہی نہیں ملتی، زراعت کیا، تعلیم وصنعت سمیت کسی بھی شعبے میں کوئی دوراندیشی ہی نہیں۔ شاید ملک کی اشرافیہ اور مخصوص خاندانوں کے بار بار اقتدار میں آنے والے وڈیروں اور جاگیرداروں کی مسلسل حکومت کے گروہی مفادات اب انتہا کو پہنچ چکے ہیں۔ یہ عناصر ہر برسراقتدار جماعت میں پائے جاتے ہیں، ان کے اقتدار کا مقصد اپنی جاگیروں، صنعتوں اور مِلوں کے مفادات کا تحفظ ہوتا ہے پھر یہی لوگ ریاستی تعمیر وترقی کے کاموں میں اخلاص سے زیادہ اِس کے ذریعے ملنے والے اپنے ’کھانچے‘ اور مفادات پر زیادہ توجہ دیتے ہیں، جس کے لیے پھر وہ معیشت کے گہرے نقصان کی بھی کوئی پروا نہیں کرتے، کیوں کہ انھیں اپنی شوگر ملوں، فلور ملوں اور اندرون وبیرون ملک کاروبار جمانے ہوتے ہیں۔ اپنے خاندان اور کمپنی کے لیے ریاست سے مراعات اور چھوٹ لینی ہوتی ہیں، محصولات میں ڈنڈی مارنی ہوتی ہے، تاکہ امریکا، لندن اور دبئی وغیرہ میں موجود کروڑوں روپے کی جائیداد اربوں کی اور اربوں کے کاروبار کو کھربوں روپے کا بنا سکیں!
یہاں ملک کی فکر بھلا کس کو ہوتی ہے؟ یہی وجہ ہے کہ قومی خزانہ خالی ہوتا جاتا ہے اور ہم بار بار ’آئی ایم ایف‘، ’عالمی بینک‘ اور امریکا سمیت بعضے دوست ممالک کے پاس بھی خالی کشکول لیے پہنچ جاتے ہیں انتہا یہ ہے کہ ہمارے بجٹ میں واجب الادا قرضوں کا سود دینے کے لیے بھی باقاعدہ رقم مختص کی جاتی ہے اور پھر ہم خسارے درخسارے کرتے ہوئے مزید قرضوں کی آس پر جیے چلے جاتے ہیں، حالاں کہ غالب بھی کہہ گئے
قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں
رنگ لاوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن
قرضوں سے کبھی مسئلے حل نہیں ہوتے، اور ہماری حالت تو اب ایسی ہے کہ ایک سے قرض لے کر دوسرے کی ادائی کرتے ہیں اور پھر دوسرے سے لے کر تیسری اور چوتھے سے لے کر پانچویں کی قسط بھرتے ہیں آج ہندوستانی روپیا ہمارے ڈھائی روپے سے زیادہ کا ہے 24 برس ہمارا حصہ رہنے والے بنگلادیش کا ٹَکا بھی سوا دو روپے سے متجاوز ہے، حد تو یہ ہے کہ بدترین جنگوں میں تباہ حال افغانستان کا سکہ بھی لگ بھگ سوا دو پاکستانی روپے کا ہے یہ بہت سادہ سی باتیں ہیں، لیکن کون سوچے، جنھیں سوچنا چاہیے، ان کے بچے، خاندان، کاروبار اور جائیداد سبھی کچھ ملک سے باہر ہے! باقی رہ گئے ہم جیسے عوام تو یہاں پورے پورے خاندان روزی روٹی کے گھن چکر میں ایسے پھنسا دیے گئے ہیں کہ ان کے پاس ایسی ”فضولیات“ پر بات کرنے کے لیے وقت ہی نہیں ہے!

مناظر: 820
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ