• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شادکیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شادکیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شادکیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شاد
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شاد

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شاد
مسلم لیگ ن اور بھارتی جنتا پارٹی میں مماثلت — تحریر: ڈاکٹر ممتاز خان
اگست 13, 2017
امریکی استعمار کا طوفان، شام سے وینزویلا تک — تحریر: فرخ سہیل گوئندی
اگست 15, 2017
Show all

کیا ہم واقعی آزاد ہیں؟ — تحریر: محمد عباس شاد

اس خطے کی تاریخ میں بیسویں صدی کا وسط بہت ہی اہم ہے، جس میں دنیا کے نقشے پر بہت اہم تبدیلیاں رونما ہوئیں۔ دوسری جنگِ عظیم کے بعد جب برطانوی سامراج کا سورج غروب ہو رہا تھا تو اُس نے جاتے جاتے بہت سے خطوں کی وحدتوں کو پارہ پارہ کیا۔ برطانوی سامراج کے زوال اور ہندوستان سے اُس کے اخراج میں عالمی حالات کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تحاریکِ آزادی کا بنیادی کردار ہے۔

14 اور 15 اگست 1947ء کی درمیانی شب رات 12 بجے دنیا کے نقشے پر ایک نئی مملکت پاکستان کے نام سے وجود پذیر ہوئی۔ قیامِ پاکستان کے گیارہ ماہ بعد 9 جولائی 1948ء کو حکومتِ پاکستان نے یادگاری ٹکٹ جاری کیا، جس پر پاکستان کا یومِ آزادی 15 اگست 1947ء کو قرار دیا گیا، لیکن بعد میں 14 اگست کو ہی یومِ آزادی ٹھہرا لیا گیا۔ قوم جشن آزادی 14 اگست کو منائے یا 15 اگست کو، یہ ضروری ہے کہ اس کے درمیانی وقفے میں کچھ گھنٹے لمحۂ فکریہ کے طور پر بھی گزارے جائیں کہ 68 سال گزر جانے کے باوجود بھی ہم آزادی کے ثمرات سے فیض یاب کیوں نہ ہو پائے۔

اب سب سے اہم سوال قوم کے سامنے یہ ہونا چاہیے کہ وہ کون سے محرکات اور عوامل ہیں جو پاکستانی قوم کو آزادی کے اثرات و نتائج سے محروم رکھے ہوئے ہیں؟ بڑی سادہ سی بات ہے کہ قیامِ پاکستان کے بعد سے اب تک معاشرے کا ایک حقیقت پسندانہ تجزیہ کیا جائے، جس میں دیکھا جائے کہ اس ملک کے وجود میں آنے کے بعد کن طبقوں نے حکومت و اقتدار سے مالی اور مادی فوائد حاصل کیے اور ان کی دولت و ثروت اور مال و جائیداد میں دن دوگنی رات چوگنی ترقی ہوئی۔ اور وہ کون سے طبقے ہیں، جو ریاست و اقتدار کے مالک بااختیار طبقوں کے مقابلے میں بڑی تیزی سے غربت و افلاس، جہالت، تنگ دستی، اور خوف ناک امراض کا شکار ہو کر موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔

پاکستان دنیا کا وہ واحد ملک ہے، جہاں سیاست دانوں کے کاروبار ترقی کے ریکارڈ قائم کرچکے ہیں اور سرمایہ دار دنیا میں اُن کے کاروبار کی تیز رفتار ترقی کو مثال کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ان کے کاروبار نہ صرف پاکستان میں ہیں، بلکہ دنیا بھر کے ملکوں میں پھیلے ہوئے ہیں۔ غریب ملک کے حکمران اور سیاست دان اربوں روپے غیر ملکی بینکوں میں منتقل کر چکے ہیں۔ اس ملک میں وہ حکمرانی، سیاست اور کاروبار کرتے ہیں، ورنہ اُن کی اولادوں کی تعلیم و تربیت اور مستقبل کے رہائشی منصوبوں کی پلاننگ بیرونِ ملک میں ہی کی جاتی ہے۔

یہاں آٹا، گھی، چینی، بجلی، گیس، پولٹری، ڈیری، سٹیل، پراپرٹی اور ٹرانسپورٹ جیسے بنیادی ضروریات کے حامل شعبوں پر سیاست دان ہی قابض ہیں۔ اس ملک کی سیاسی قیادت اس حد تک اقتصادی پالیسیوں پر اثرانداز ہوتی ہے کہ وہ چند لاکھ کا فائدہ اٹھانے کے لیے کروڑوں روپے کا بوجھ عوام کی طرف منتقل کرنے میں بھی نہیں ہچکچاتی۔

اس ملک کے سیاست دان، مشیر، اور وزیر، سینیٹ اور اسمبلی کے اراکین، سول اور ملٹری بیوروکریسی، طاقتور صنعت کار اور اسٹاک ایکسچینج کے سٹے باز ایسے مضبوط رشتوں میں بندھے ہوئے ہیں کہ حکومت و اقتدار کی ہر سہولت ان کے خوانِ نعمت کا حصہ ہوتی ہے۔

پاکستان میں اس وقت تقریباً 80 شوگر ملیں ہیں اور ان میں سے 60 سے زیادہ سیاست دانوں، ان کے بھانجوں، بھتیجوں، دامادوں اور قریبی رشتے داروں کی ملکیت ہیں۔ اس ملک کے شریف حکمران، چوہدری سیاست دان، ایک سابق صدر اور ایک دینی جماعت کے سربراہ، یہ لوگ معمولی مالی حیثیت اور چھوٹے درجے کے کاروباروں کے مالک تھے، لیکن دورانِ اقتدار نہ صرف ان کے کاروبار بڑھے، بلکہ ان کے من پسند افراد اور خاندان بھی غیر معمولی مالی ترقی کر گئے۔

دو بڑی نام نہاد سیاسی پارٹیاں باری باری اقتدار کی مسند پر کئی بار قبضہ جما چکی ہیں۔ ان کے جمہوری ادوار میں کرپشن کے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔ ان میں موجود اشرافیہ مل بانٹ کر کھانے کے عمل کو مفاہمت کا نام دے کر کئی سال سے قوم کو دھوکا دے رہی ہے۔ اب یہی اشرافیہ ایک نئی ابھرتی سیاسی قوت کے ساتھ تال میل بڑھا کر ایک نئے راستے سے پھر اقتدار پر قابض ہونا چاہتی ہے۔

پاکستان میں پچھلی چار دہائیوں میں کمائی جانے والی دولت میں سے تقریباً 80 فیصد سیاسی اثر و رسوخ، اختیارات کے ناجائز استعمال، اور غیر قانونی طریقوں سے کمائی گئی دولت ہے، جس کے 75 فیصد حصے کے مالک سیاست دان اور بیوروکریٹ ہیں۔ ہماری سڑکوں پر دوڑتی مہنگی گاڑیاں، دن بہ دن تعمیر ہوتے شاپنگ مال، نئی مہنگی رہائشی اسکیمیں اور فائیو اسٹار ہوٹلوں کے مالکان بھی یہی حکمران اور سیاسی جماعتوں کے سربراہ ہیں، جبکہ اس ملک کا سفید پوش اور غریب طبقہ سیاسی، معاشی، سماجی، قانونی، اور تعلیمی طور پر پسماندہ قوم کے طور پر جانا جاتا ہے۔

پاکستان کے موجودہ نظامِ میں اسمبلیوں میں موجود ہزار بارہ سو کے قریب سیاسی، مذہبی، علاقائی اور لسانی جماعتوں کے سربراہ اور اُن کے چیلے ہی چہرے اور پارٹیاں بدل بدل کر حکمرانی کا مزہ لوٹ رہے ہیں۔ الغرض پاکستان کی موجودہ سیاست اور حکمرانی کا ڈھانچہ بین الاقوامی استعمار کا قائم کردہ ایک ایسا بندوبست ہے، جس میں ان کی وفادار پارٹیاں اُن کے سرمایہ دارانہ مفادات کے تحفظ کے لیے کام کرتی ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ آج ہم اس موقع پر اس بات کا فیصلہ کرسکیں کہ اس ملک کے استحصالی طبقے اس کی ترقی اور آزادی میں سب سے بڑی رُکاوٹ ہیں۔ کیونکہ اس اقلیت کا مفاد اور عوام دو متضاد چیزیں بن کر رہ گئی ہیں۔ اگر اس ملک میں اجتماعیت پر مبنی اور استحصال سے پاک کسی نظام کی داغ بیل ڈالنی ہے تو اس طبقے سے نجات ضروری ہے۔

یاد ریے یہ مضمون 2015  میں لکھا گیا تھا روزنامہ ڈان سمیت بہت سی ویب سائٹس اسے شائع کرچکی ہیں جس کی تازگی آج بھی برقرار ھے  اور قارئین کے لیے قند مکرر کے طور پر دوبارہ شائع کیا جارہاہے۔

مناظر: 199
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جولائی 11, 2022

عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ