• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
سانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خانسانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خانسانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خانسانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خان
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

سانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خان

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خان
کافر کافر کا کھیل اور وسط ایشیاء کے اسلامی ممالک — تحریر: زوھیب گل
فروری 18, 2017
ڈونالڈ ٹرمپ کے نفسیاتی مرض کا علاج ممکن ہے؟ — تحریر: عادل فراز
فروری 19, 2017
Show all

سانحہ شاہ نورانی سے سانحہ سیہون پور تک. — تحریر شاہد خان

کہا جاتا ہے کہ سانحات روح کو جھنجھوڑنے کے لئے کافی ہوتے ہیں، یہ تحریر درگاہ شاہ نورانی میں میلے کے دوران جاری دھمال کے شور میں ہونے والے ایک دھماکے کی کڑی ہے۔ ٹھیک 3 ماہ قبل درگاہ شاہ نورانی کے صحن میں مٹُھی بھر دہشت گرد کے چٹکی بھر ساتھیوں نے خواتین اور بچوں سمیت 50 زائرین کو کامیابی سے نشانہ بنایا تھا۔ تاریخ دہرائی گئی، دن اور مقام تبدیل ہوا، سیہون میں واقع درگاہ لعل شہباز قلندرؒ کے احاطے میں ایک خودکش حملہ آور داخل ہوا۔ پچھلے واقعے سے زیادہ، یعنی 70 سے زائد افراد کو ہدف بنانے میں کامیاب ہوگیا۔ گویا دشمن کی کمر تو ٹوٹ چکی تھی لیکن اُس کا باقی جسم قومی امن کو تباہ کرنے کے لئے سلامت تھا۔
رواں سال کو پاکستان کے لئے دہشت گردوں سے نمٹنے کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کراچی، پشاور، لاہور، مہمند، ڈی آئی خان، آواران اور اندرون سندھ قلندر کی نگری بھی غیر محفوظ ثابت ہوگئی۔ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا، پولیس اور فوج کے اہل کار نشانہ بن رہے ہیں۔ 5 دن کے اندر ملک کے ہر صوبے میں چند عناصر کی دہشت گرد کارروائیوں میں صرف 100 سے زائد افراد زندگی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ اُن کے بچے کُچھے خاندان، بقیہ سانسوں تک زندہ لاش بن گئے۔
8 سو برس قدیم معروف بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر جمعرات کی شام ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں۔ کیا درگاہ شاہ نورانی واقعے کے بعد، مزاروں کےعقیدت مندوں کی سیکورٹی کے لئے کوئی انتظام کیا گیا تھا؟ کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کے ڈھٹائی سے ذمہ داری قبول کرنے والے پیغامات کی روایت کیا اِس جانب اشارہ نہیں کررہی کہ وہ ہماری سرزمین پر ہی پنپ رہے ہیں؟
درجنوں شہداء کے خون سے لعل شہباز قلندر کی درگاہ سرخ ہوگئی، اِس خون کا بدلہ لیں یا نہ لیں، زندہ افراد کی زندگی کو محفوظ بنانے میں مزید تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔ کیا اِس وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کرنے کا صحیح وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ قوم کو اُن کی مضبوط قیادت پر پورا بھروسہ تھا۔ توقع ہے کہ موجودہ عسکری قیادت اور حکمراں جماعت بروقت درست فیصلے لے۔ قوم نیشنل ایکشن پلان کی اصطلاح سے صرف اس لئے واقف ہے کیونکہ امن کی جانب واحد حل اسی پلان میں پوشیدہ ہے۔
دسمبر 2014 سے 14 فروری 2017 تک بے شمار کارروائیاں کی گئیں، لیکن اثرات ندارد ہیں، کیا مجرمان کے خلاف موثر کارروائی میں نادیدہ رکاوٹیں کھڑی ہیں؟ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ تعطل کا شکار کیوں ہے؟
ماسکو کانفرنس میں شریک پاکستان، افغانستان میں امن کے قیام کی کوشوں میں پیش پیش ہے، جبکہ خود لہو لہو ہے۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہورہی ہے، بھارت اور افغانستان کی بڑھتی ہوئی قربتیں بھی نظر انداز کرنے کے قابل ہرگز نہیں۔ خطے میں امن کے خواہش مند ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ناکام کیوں نظر آرہی ہے؟ حالیہ دہشت گردی کے پیشِ نظر ملک کے تمام مزارات کو بند کرکے وہاں سیکورٹی بڑھادی گئی جبکہ پاک افغان سرحد کو فوری طور پر بند کردیا گیا۔ دہشت گردوں کو چھوٹ ملتی رہی اور 11 برسوں کے دوران کراچی، لاہور اور پشاور کے مزارات پر حملے ہوتے رہے، جن میں عبداللہ شاہ غازی اور بری امام کے مزارات بھی شامل ہیں۔
ملک کی عوام دہشت گروں کے لیے مسلسل آسان ہدف بنی ہوئی ہے۔ دسمبر 2014ء سے اب تک تعلیمی ادارے، اسپتال، تفریح گاہیں اور مذہبی اجتماعات کو بخشا نہیں جارہا۔ انتہا پسندی کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں تو حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت اکھٹی کیوں نہیں؟ آج ملک سوگ کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ کیفیت حکمرانوں کے محض تعزیتی بیانات، تفتیش اور تحقیقاتی کمیٹی سے نہیں بدلے گی۔ ملک کو اگر تا دیر امن کا گہوارہ بنانا ہے تو انتہا پسندی کے خلاف آپریشن کے اثرات کو زائل ہونے سے بچانا ہوگا۔ مٹھی بھر عناصر سے ’’آہنی‘‘ ضرب عضب کے ذریعے نمٹنا ہوگا۔ سانحہ سیہون نے اگر ہماری ذمہ دار اور بااختیار قیادت کی روحوں کو نہ جھنجھوڑا تو، ایسی سرکار کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہوگا۔
مناظر: 221
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

جون 13, 2022

عمران خان کا یہ قصور کم نہیں تھا!


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ