رواں سال کو پاکستان کے لئے دہشت گردوں سے نمٹنے کا سال کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ کراچی، پشاور، لاہور، مہمند، ڈی آئی خان، آواران اور اندرون سندھ قلندر کی نگری بھی غیر محفوظ ثابت ہوگئی۔ صاف ظاہر ہے کہ میڈیا، پولیس اور فوج کے اہل کار نشانہ بن رہے ہیں۔ 5 دن کے اندر ملک کے ہر صوبے میں چند عناصر کی دہشت گرد کارروائیوں میں صرف 100 سے زائد افراد زندگی سے محروم نہیں ہوئے بلکہ اُن کے بچے کُچھے خاندان، بقیہ سانسوں تک زندہ لاش بن گئے۔
8 سو برس قدیم معروف بزرگ حضرت لعل شہباز قلندر کے مزار پر جمعرات کی شام ہزاروں کی تعداد میں زائرین آتے ہیں۔ کیا درگاہ شاہ نورانی واقعے کے بعد، مزاروں کےعقیدت مندوں کی سیکورٹی کے لئے کوئی انتظام کیا گیا تھا؟ کالعدم تنظیموں کے نمائندوں کے ڈھٹائی سے ذمہ داری قبول کرنے والے پیغامات کی روایت کیا اِس جانب اشارہ نہیں کررہی کہ وہ ہماری سرزمین پر ہی پنپ رہے ہیں؟
درجنوں شہداء کے خون سے لعل شہباز قلندر کی درگاہ سرخ ہوگئی، اِس خون کا بدلہ لیں یا نہ لیں، زندہ افراد کی زندگی کو محفوظ بنانے میں مزید تاخیر سے کام نہ لیا جائے۔ کیا اِس وقت یہ کہنا ٹھیک نہیں ہوگا کہ سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کا شکریہ ادا کرنے کا صحیح وقت ابھی نہیں آیا تھا۔ قوم کو اُن کی مضبوط قیادت پر پورا بھروسہ تھا۔ توقع ہے کہ موجودہ عسکری قیادت اور حکمراں جماعت بروقت درست فیصلے لے۔ قوم نیشنل ایکشن پلان کی اصطلاح سے صرف اس لئے واقف ہے کیونکہ امن کی جانب واحد حل اسی پلان میں پوشیدہ ہے۔
دسمبر 2014 سے 14 فروری 2017 تک بے شمار کارروائیاں کی گئیں، لیکن اثرات ندارد ہیں، کیا مجرمان کے خلاف موثر کارروائی میں نادیدہ رکاوٹیں کھڑی ہیں؟ ملک میں فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع کا معاملہ تعطل کا شکار کیوں ہے؟
ماسکو کانفرنس میں شریک پاکستان، افغانستان میں امن کے قیام کی کوشوں میں پیش پیش ہے، جبکہ خود لہو لہو ہے۔ افغان سرزمین پاکستان کے خلاف مسلسل استعمال ہورہی ہے، بھارت اور افغانستان کی بڑھتی ہوئی قربتیں بھی نظر انداز کرنے کے قابل ہرگز نہیں۔ خطے میں امن کے خواہش مند ملک کی اپنی خارجہ پالیسی ناکام کیوں نظر آرہی ہے؟ حالیہ دہشت گردی کے پیشِ نظر ملک کے تمام مزارات کو بند کرکے وہاں سیکورٹی بڑھادی گئی جبکہ پاک افغان سرحد کو فوری طور پر بند کردیا گیا۔ دہشت گردوں کو چھوٹ ملتی رہی اور 11 برسوں کے دوران کراچی، لاہور اور پشاور کے مزارات پر حملے ہوتے رہے، جن میں عبداللہ شاہ غازی اور بری امام کے مزارات بھی شامل ہیں۔
ملک کی عوام دہشت گروں کے لیے مسلسل آسان ہدف بنی ہوئی ہے۔ دسمبر 2014ء سے اب تک تعلیمی ادارے، اسپتال، تفریح گاہیں اور مذہبی اجتماعات کو بخشا نہیں جارہا۔ انتہا پسندی کے خلاف سیاسی جماعتیں متحد ہیں تو حکومت اور اعلیٰ عسکری قیادت اکھٹی کیوں نہیں؟ آج ملک سوگ کی کیفیت میں ڈوبا ہوا ہے، یہ کیفیت حکمرانوں کے محض تعزیتی بیانات، تفتیش اور تحقیقاتی کمیٹی سے نہیں بدلے گی۔ ملک کو اگر تا دیر امن کا گہوارہ بنانا ہے تو انتہا پسندی کے خلاف آپریشن کے اثرات کو زائل ہونے سے بچانا ہوگا۔ مٹھی بھر عناصر سے ’’آہنی‘‘ ضرب عضب کے ذریعے نمٹنا ہوگا۔ سانحہ سیہون نے اگر ہماری ذمہ دار اور بااختیار قیادت کی روحوں کو نہ جھنجھوڑا تو، ایسی سرکار کی بے حسی پر افسوس نہیں بلکہ شرم کا مقام ہوگا۔