’’آگے بڑھنے کے کئی طریقے ہیں، مگر سیدھا کھڑا ہونے کا ایک ہی طریقہ ہے!‘‘
فرینکلن ڈی روزویلٹ
کوئی نیا مقام تلاش کرنے کیلئے وہاں کے مقامی افراد سے پوچھنا پڑتا ہے، مدد لینا پڑتی ہے۔ اس سے منزل پرپہنچنے میں آسانی ہو تی ہے۔ لیکن جب راستے کا پتا نہ ہو تو اس کیلئے تکلیف اٹھانا پڑتی ہے۔ بعض اوقات انسان اس راستے پر چل رہا ہوتا ہے جو منزل کی طرف نہیں جا رہا ہوتا یا اس راستے پر چل پڑتا ہے جو بہت لمبا ہوتا ہے۔ جب ایسی صورتِ حال ہو تو جذبات، توقع اور امید پر فرق پڑنا شروع ہو جاتا ہے۔
زندگی میں کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بعض طالب علم یہ گمان کرتے ہیں کہ میری تیاری اتنی ہے کہ میں آسانی سے ٹاپ کر جائوں گا۔ لیکن وہ ٹاپ نہیں کر پاتے۔ ان کی توقع کچھ اور ہوتی ہے اور نتیجہ کچھ اور نکلتا ہے۔ انسان زندگی میں بے شمار پلان بناتا ہے، لیکن وہ پلان دَھرے رہ جاتے ہیں جس کی وجہ سے اس کا سفر خراب ہو جاتا ہے۔ پھر اسے پتا چلتا ہے کہ میں نے جتنی توانائی اور وسائل لگائے ہیں، وہ غلط لگے ہیں اور میں نے اپنے سفر کی زیادہ قیمت ادا کردی ہے۔
ہر شے کی قیمت ہے
بچپن میں ہر بچہ ا پنا کھلونا ٹوٹنے پر روتا ہے اور پھر اپنی ضد کو منوا کر دوبارہ نیا کھلونالینا چاہتا ہے۔ کھلونے کیلئے ’’ضد کرنا‘‘ قیمت ہے جو بچہ ادا کرتا ہے۔آپ اپنی زندگی پر غور کیجیے اور دیکھئے کہ جو خواہشیں پوری ہوئیں، اْس کی کتنی قیمت آپ نے ادا کی۔ آیا یہ قیمت زیادہ تھی یا کم۔
بہت سے لوگ اپنی خواہشیں پورا کرنے کیلئے لمبے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ کئی لوگ پیسہ بنانے کیلئے سمت گنوا دیتے ہیں۔ کئی لوگ پیسے کیلئے اپنی صحت خراب کرلیتے ہیں۔ پھر اس پیسے کو دوبارہ صحت ٹھیک کرنے کیلئے خرچ کرڈالتے ہیں۔ زندگی میں یہ طے کرنا ضروری ہے کہ آپ کو لمبا راستہ کس چیز کیلئے طے کرنا ہے۔ مثال کے طور پر، آپ کو جو شے جان کے بل بوتے پر حاصل کرنا ہے، عین ممکن ہے وہ کسی کو ویسے ہی مل گئی ہو۔ ہم پیسہ اس لیے کماتے ہیں کہ ہماری زندگی میں سکون آجائے۔ پیسہ تو آ جاتا ہے، لیکن سکون نہیں آتا۔ آج ماہر نفسیات کے پاس جانے والوں کی زیادہ تعداد اْن لوگوں کی ہے جن کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اْن کے پاس پیسہ تو ہے، لیکن سکون نہیں ہے۔
لمبے راستے کا انتخاب ہمارا مزاج بن چکا ہے۔ یہ غلط فہمی عام ہے کہ مختصر راستے سے ہم کوئی بڑی کامیابی حاصل نہیںکرسکتے۔ اگر کسی کو لمبے راستے پر ڈال دیا جائے وہ بہت خوش ہو گا۔ مثلاً، جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو یہ سمجھتے ہیںکہ مہنگی فیس والے ڈاکٹر کے پاس جاکر مہنگی دوا خرید کر کھائیں گے تو ہمیں شفا ملے گی۔ حالانکہ بہت سی بیماریا ں ایسی ہیں جو مفت کے گھریلو ٹوٹکوں سے دور ہو سکتی ہیں۔ لیکن لوگ ان کیلئے بھی لمبے چوڑے نسخہ جات کا استعمال کر رہے ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ڈاکٹر انھیں یہ کہہ دے کہ اگر تم روزانہ پندرہ منٹ دھوپ میں بیٹھو تو تمہار ا مسئلہ حل ہو سکتا ہے، تو وہ کہیں گے، یہ ڈاکٹر ٹھیک نہیں ہے، ہمیں کوئی مشکل سا عمل چاہیے۔ ہم لمبے راستے کی وجہ سے دوسروں کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ زندگی میں ہمیں بے شمار لوگ ایسے ملتے ہیں جو دوسروں کی باتوں میں آنے کی وجہ لمبے راستے پر پڑے ہوتے ہیں اور پھر اپنی منزل پر نہیں پہنچ پاتے۔
حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں
’’یہ ایک سجدہ جسے تْو گراں سمجھتا ہے ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات‘‘
ایک سجدہ ایسا تلاش کیجیے کہ ہزار سجدوں سے نجات مل جائے۔ بہت سے لوگوں کے پاس مقبول حج کرنے کاموقع ہوتا ہے، لیکن وہ یہ حج نہیں ادا کرپاتے (مقبول حج کا مطلب اپنے والد ین کو مسکرا کر دیکھنا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے کہ ’’خاک میں ملے اس کا سر جس نے والدین کو بوڑھا دیکھا اور جنت حاصل نہ کی اور بدبختی اس کیلئے ہے جس نے والدین کو بوڑھا دیکھا، لیکن ان کی خدمت نہ کی۔‘‘ اگر حج کے لوازمات پر غور کیا جائے تو پتا چلتا ہے کہ اس میں کتنی مشقت ہے۔ لوگ اس مشقت کا انتخاب کر تے ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ حج صرف اہل استطاعت پر فرض ہے، مگر وہ لوگ جن کے والدین ان کے پاس ہیں وہ ان پر توجہ ہی نہیں دیتے اور لمبے راستے کا انتخاب کرتے ہیں۔ ہمارا جی چاہتا ہے کہ زکام کا بھی اپریشن ہونا چاہیے۔ ا س میں کوئی تکلیف ہونی چاہیے۔ آسان اور مختصر راستے پر چلنا دشوار لگتا ہے۔
ان چیزوں کی فہرست بنائیے جن کی وجہ سے لمبے راستے کا انتخاب کرنا پڑا۔ اپنے آپ سے سوال پوچھئے کہ کیا میرا لمبا راستہ طے کرنا ضروری تھا؟ کیا اتنی تگ و دَو کی ضرورت تھی؟ کیا اتنی توانائی لگانی چاہیے تھی؟ کیا اتنا وقت صرف کرنا چاہیے تھا؟
غفلت کی زندگی؛ زیاں کا احساس
زندگی میں سنجیدگی اس وقت آتی ہے کہ جب یہ احساس ہونے لگے کہ میرا وقت ضائع ہو رہا ہے۔ جب وقت ضائع ہونے پر تکلیف ہونے لگے تو اس وقت شکر ادا کیجیے، کیونکہ آپ کا شمار دنیا کے خوش قسمت ترین انسانوں میں ہونے لگاہے۔ جس انسان کو اپنے وقت کی قدر ہو، وہ بہت ہی خوش قسمت انسان ہے۔ اس بات کا شکر ادا کیجیے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو زندگی کی قدر مناسب وقت میں دے دی، کیونکہ اکثر لوگوں میں یہ احساس عمر کے آخری حصے میں پیدا ہوتا ہے۔ اس وقت احساس کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’غافل کی آنکھ تب کھلتی ہے جب بند ہوتی ہے۔‘‘ اگر آپ کی آنکھ ابھی سے کھل گئی ہے تو پھر آپ خوش قسمت ہیں اور آپ لمبے راستے سے بچ گئے ہیں۔
لمباراستہ اس وقت اختیار کیجیے کہ جب اسے اختیار کرنا ضروری ہوجائے۔ یہ طے کیجیے کہ اپنے وسائل کہاں کہاں استعمال میں لانا ہیں۔ طے کیجیے کہ میرا کریئرکیا ہے۔ طے کیجیے کہ میرا مستقبل کیا ہونا چاہیے۔ طے کیجیے کہ میرا ویژن کیا ہے۔ جو آدمی اپنی زندگی کے معاملے میں صاف گو ہو جاتا ہے، اس کیلئے زندگی کے اہم فیصلے کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ وقت ضائع کرنے والا اصل میں اپنی زندگی ضائع کر تا ہے۔ ’’مجھے کیا کرنا ہے؟‘‘ اس کا تعین جتنی جلد ممکن ہوسکے، کرلینا چاہیے تاکہ زندگی آسان ہو جا ئے۔ آپ جو لینے جا رہے ہیں، یہ دیکھئے کہ آنے والی چیز اس سے مطابقت رکھتی ہے یا نہیں۔ جب انسان کو پتا ہوتا ہے کہ مجھے کیا کرنا ہے تو بہت سے غیر ضروری کاموں سے وہ بچ جاتا ہے۔ بڑے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے اپنی ضرورت سے زیادہ پیسہ بنا لیا، حالانکہ انھیں اتنے پیسے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ پھر وہ اس مال کی حفاظت میں لگے رہتے ہیں۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’کنجوس اپنے مال کی حفاظت کرتے ہوئے مر جاتا ہے۔‘‘
ہر شخص نے اپنی اپنی کمیٹی ڈالی ہوئی ہے۔ کمیٹی کا مطلب ہے کہ چپکے چپکے محنت کررہا ہے، جیسے پڑھائی کی کمیٹی، نوکری کی کمیٹی، کاروبار کی کمیٹی، تعلقات کی کمیٹی، محنت کی کمیٹی۔ ان کمییٹوں کی فہرست بنائیے اور طے کیجیے کہ وہ کمیٹیاں ٹھیک ہیں کہ نہیں۔ ایسی لاشعوری، لاحاصل اوربے وجہ کوشش جس کے انجام کا نہیں پتا، اس سے ہاتھ اٹھا لیں، اسے ترک کردیجیے۔آپ کی محنت سے اگر کسی کو فائدہ ہو رہا ہے تو پھر بہت اچھی بات ہے، لیکن اگر کسی کو کوئی فائدہ نہیں ہورہا تو پھر اس محنت سے پیچھے ہٹ جائیے۔ جب رات کو سونے لگیں تو دیکھیں کہ آج میں نے اپنے مقصد سے جڑے ہوئے کتنے کام کیے۔ روزانہ یہ مشق کیجیے کہ آج میں نے ایسے کون سے پانچ کام کیے ہیں جن کا تعلق میرے مقصد سے ہے۔ جب یہ مشق روزانہ ہو گی تو پھر ذہن میں ہوگا کہ مجھے جواب دینا ہے۔ پھر لمبے اور غیر ضروری راستے سے بچنا آسان ہوجائے گا۔
زندگی واحد ڈیل ہے جس میں وقت پر طے کرنا پڑتا ہے کہ کرنا کیا ہے اور کیا نہیں کرنا۔ اگر وقت پر طے کر لیا تو پھر زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ اگرطے نہیں کیا تو پھر زندگی مشکل ہوجائے گی۔ پھر جو چاہیں گے، وہ نہیں ملے گا۔ ایک گورے نے کتاب لکھی جس کا نام ہے، ’’ زندگی کیا ہے؟‘‘ اس نے سو کامیاب لوگوں کو خط لکھے۔ ان میں کئی لوگوں نے اس کے خط کا جواب نہیں دیا۔ کئی لوگوں نے معذرت کرلی۔ اس نے یہ تمام باتیں اپنی کتاب میں لکھ لیں اور کہا کہ کتنی عجیب بات ہے کہ دنیا میں اتنے لوگ ہیں، مگر کسی کو بھی نہیں پتا کہ زندگی کیا ہے۔ اس نے جیل کے قید ی کو بھی خط لکھا۔ اس نے جواب دیا کہ آزادی کا نام، زندگی ہے۔ ’’جو چیزنہ ہو، وہ زندگی ہوتی ہے۔‘‘ جب تک کوئی چیز چھن نہ جائے، تب تک زندگی کی سمجھ نہیں آتی، چھننے کے بعد پتا چلتاہے کہ میں نے کتنا لمبا راستہ طے کیا ہے۔ کاش میں یہ لمبا راستہ طے نہ کرتا۔ کاش میں اپنی توانائی ضائع نہ کرتا۔ کاش، میں اپنے وقت کو ضائع نہ کرتا۔ جب یہ طے ہو جاتا ہے کہ زندگی سے کیا چاہنا ہے تو پھر آدمی مسافر کی طرح زندگی گزار نا شروع کرتا ہے۔
جوازِ ہستی
زندگی کی سب سے اعلا تعریف یہ ہے کہ زندگی کا جواز مل جائے۔ جب جوازِ ہستی پاس ہو تو پھر زندگی گزارنا اور اگلی منزل پر جانا آسان ہوجاتا ہے۔ مثا ل کے طور پر، موبائل ہو لیکن اس کے فنکشنز کا پتا ہی نہ ہو اور صرف یہی سمجھا ہو کہ اسے صرف جیب میں ہی ڈالا جاتا ہے توپھر اس سے پور ا فائد ہ نہیں اٹھایا جا سکتا۔ زندگی بھی اس طرح ہوتی ہے۔ اکثر لوگوں کو اس کے فنکشنز کا پتا ہی نہیں ہوتا۔ جب یہ جانے لگتی ہے، تب اس کے فنکشنز کا پتا چلتا ہے۔ لیکن اس وقت تک بہت دیر ہوچکی ہوتی ہے۔ زندگی کا سراغ تلاش کیجیے۔ اس کا جواب باہر سے نہیں ملے گا، اس کا جواب صرف اندر سے ملے گا، اپنے اندر سے جواب آئے گا۔ یہ جواب، جیسا بھی ہو، سننے کیلئے ہمیشہ تیار رہیے۔ خبر نہیں کہ کب اندر کا سچا انسان خیال کی شکل میں بول پڑے۔
جس دن جوازِ ہستی مل جائے، زندگی اسی دن شروع ہوجاتی ہے۔ زندگی اس دن کا نام ہے جس دن یہ احساس آئے کہ یہ زندگی ہے۔ اس سے پہلے زندگی نہیں تھی، دن تھے جو گزارے جاتے تھے۔ جس دن احسا س آجائے تو سمجھ جائے کہ آپ کو جوازِ ہستی مل گیا۔ جب جوازِ ہستی مل جاتا ہے پھر انسان بامقصد چیزوں کے قریب جانے لگتا ہے اوراسے اپنی منزل سامنے نظر آنے لگتی ہے۔
آج سے اپنا سب سے اچھا کام تلاش کیجیے اور اللہ تعالیٰ سے دعاکیجیے کہ مالک، میرے سب سے اچھے کام کو اپنی راہ میں لگا۔ میرا بولنا، میرا سننا، میرا لکھنا، میرا پڑھنا، میری توانائی، میرا مال، میرے تمام تر وسائل میرے مقصد حیات پر لگ جائیں۔ یہ بھی شعور ہے کہ اپنے ساتھ جڑی ہوئی زندگیوں کی قدر کرنے لگیں۔انھیں شعور دینے لگیں۔ فہم دینے لگیں۔ اس سے بڑا مقصد اور کوئی نہیں ہوسکتا کہ اللہ کا بندہ نقصان دہ نہ رہے، بلکہ فائدہ مند ہوجائے۔ اگر آدمی نے دوسروں کو نقصان پہنچانا بند کردیا اور فائدہ پہنچانا شروع کردیا تو سمجھئے کہ وہ مقصد حیات کی طرف چل پڑا ہے۔ یہ سب سے بری علامت ہے۔ پھر وہ اگر سائنسدان ہے تو وہ کوئی دریافت کرے گا، استاد ہے تو نسلیں سنوارے گا، قلم کار ہے تو لوگوں کیلئے ہدایت لکھے گا۔ پھر ہر فن کا ماہر اپنے فن کے ذریعے معاشرے کی اصلا ح کا کام کرے گا۔
معمولی واقعات غیر معمولی نہیں
جس مالک نے آپ کو تخلیق کیا ہے، اس مالک نے آپ کے مقصد کی بھی تخلیق کی ہے۔ قدرت اتنی مہربان ہے کہ وہ کسی نہ کسی کی زبان سے بولتی ہے اور آپ کو پیغام دیتی رہتی ہے۔ کہیں خیال ڈال دیتی ہے تو کہیں کوئی کتاب کھل جاتی ہے۔ کہیں ریڈیو غلطی سے لگ جاتا ہے، کہیں حادثہ ہو جاتا ہے۔ کہیں کوئی کسی کو سمجھا رہا ہوتا ہے۔ البتہ، قدرت کے ان پیغامات کو چند ہی سمجھ پاتے ہیں۔ حضرت علامہ اقبالؒ فرماتے ہیں، ’’دے کر احساس زیاں تیرا لہو گرما دے‘‘ احساسِ زیاں کا مطلب ہے کہ آپ کے اند ر یہ احساس کہ زندگی ضائع ہو رہی ہے، میں ڈوب رہا ہوں، میں کام کی تکمیل کے بغیر جا رہا ہوں۔ جب آنکھو ں سے بے سبب آنسو آنا شروع ہو جائیں تو وہ دعا مانگنے کا بہترین وقت ہوتاہے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آپ کو یاد کیا ہوتا ہے۔ اس وقت جو بھی دعا مانگی جائے، وہ جوازِ ہستی بن جاتی ہے۔
لمبے راستے کا اندازہ انسان کو اس راستے پر چلنے سے ہی محسو س ہوجاتا ہے۔ آدمی کوئی کام غلط کر رہا ہو، اسے پتا بھی ہو لیکن پھر بھی کرتا جا ئے تو یہ بہت زیادتی ہے۔ لمبے راستے کے ساتھی بھی بولنے لگتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ تم غلط راستے پر ہو۔ جگہ جگہ پر نشانیاں محسوس کراتی ہیں کہ تم غلط کر رہے ہو۔چیزوں میں سے آوازیں آتی ہیں۔آدمی اپنے راستے اور اپنی منزل پر جتنا آسانی سے جاتا ہے، کسی اور راستے پر نہیں جا سکتا، کیونکہ اس میں سر شاری ہوتی ہے۔ اس راستے کی تکالیف میں بھی راحت محسوس ہوتی ہے۔
کچھ لمبے راستے ایسے ہوتے ہیں جن پر چلنا چاہیے جیسے بے غرض تعلقات جس کے بارے میں حکم ہے کہ انھیں ماننا ہے، جیسے والدین، دوست احباب وغیرہ۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’دوست کے ساتھ صرف ایک ہی سلوک روا ہے، اور وہ وفا ہے۔‘‘ وفا کا مطلب ہے کہ اس کی بے وفائی اور آپ کی وفا۔ سچی دوستی میں دوست کی خوشی آپ کی خوشی ہوتی ہے، دوست کا غم آپ کا غم ہوتا ہے۔ دوسرا لمبا راستہ اللہ تعالیٰ کیلئے کاٹنا چاہیے۔ تیسرا لمباراستہ جس کے بارے میں فیض حسن سیال صاحب کہتے کہ ’’دنیا کا سب طویل سفر خود شناسی کا سفر ہے۔‘‘ اس کیلئے لمبا راستہ جائز ہے۔ جیسے جیسے میں اپنی ذات میں اترا، حیران ہو تاگیا کہ مالک یہ تیرا ہی کارخانہ ہے، تو نے مجھے کیا سے کیا بنا دیا، میں نے تو کبھی سوچا بھی نہیں تھا۔ بندہ جب خود کو تلاش کرلیتا ہے تو پھر وہ گنگ ہو جاتا ہے۔
اس دنیا میں آپ کا منفرد کردار
ہم سب ایک جیسے نہیں ہیں۔ ہماری نفسیات، ہماری چاہتیں، ہماری تلاش، ہمارے راستے، ہمارے انداز، ہمارے مزاج، ہماری انسپائریشن اور ہم سب کا پس منظر مختلف ہے۔ جب سب کچھ مختلف ہے تو پھر سب کا مقصد بھی ایک نہیں ہوسکتا۔ سب کی چوائس ایک نہیں ہو سکتی۔ کائنات میں ہر انسان کا مختلف ہونا خالق کا بہت بڑا حْسن ہے۔ ہر شخص اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔ کبھی معاشرے کے ایک کردار کو نکال کر دیکھئے، سارا نظام درہم برہم ہوجائے گا۔ مثلا، صرف ایک ماہ کیلئے دنیا سے حجام نکل جا ئے تو لوگوں کے حلیے بدل جائیں گے۔
اس دنیا میں کس نے پریت نباہی
اپنی ذات میں گم ہیں سارے، کیا بربت کیا رائی
پہاڑ بھی اپنی ذات میں گم ہے اور ریت کا ذرا بھی اپنی ذات میں گم ہے۔ دنیا کی ایک ایک چیز اپنے وجود کے بارے میں بتا رہی ہے کہ میں ہوں۔ آپ بھی اپنے وجود کو تلاش کیجیے کہ یہ وجود کیوں ہے، اس کے ہونے کا جواز کیا ہے، کیا ہمارا دنیا میں آنا ضروری تھا اور کیا جانا ضروری ہے؟ تکمیل کا نہ ہونا ہی ہمیں لگا رہنے دیتا ہے۔ جس فرد کو یہ احساس ہوجائے کہ مجھے سب کچھ مل گیا ہے تو وہ فارغ ہوجاتا ہے۔ اس کے برخلاف، اگر بہت کچھ کرکے لگتا ہے کہ ابھی تو کچھ بھی نہیں کیا تو یہ خوش قسمتی ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تو آپ سے کوئی بڑا کام لینا ہے۔ خوب علم کے بعد محسوس ہو کہ ابھی بھی لا علم ہوں تو یہ احساس ’’علم‘‘ کی علامت ہے۔
جس سفر سے کوئی کمائی کی ہے، اس سفر کو سلام کیجیے۔ حضرت واصف علی واصفؒ فرماتے ہیں، ’’اس گناہ کا شکریہ ادا کیجیے جس گناہ نے توبہ کرادی۔‘‘ ایک ایسی ڈیل جس کے بعد پتا لگ جائے کہ زندگی میں یہ ڈیل کبھی نہیں کرنی تو اس ڈیل کا شکریہ ادا کیجیے۔
زندگی میںایک مقام وہ بھی آتا ہے کہ جب آدمی ان لوگوں کیلئے بھی دعا کر تا ہے جنھوں نے اس کے ساتھ زیادتی کی ہوتی ہے۔ بعض اوقات انسان کو کسی سے ایسا درد ملتا ہے کہ وہ واقعہ محو ہوجاتا ہے، مگر اس تجربہ کا درد باقی رہتا ہے۔ یہ درد دْعا میں کام آتا ہے اور اس کی قبولیت کا ذریعہ بنتا ہے۔ کسی کی زیادتی کے باجود بھی معافی دے رہے ہیں تو پھر آپ چھوٹے انسان نہیںہیں، عظیم انسان ہیں۔ کوئی بھی شخص اپناحساب کرانا نہیںچاہتا، اس لیے آپ کو دوسروں کا حساب بھی نہیں کرنا چاہیے۔ آنے والی زندگی پچھلی زندگی سے بہترہونی چاہیے۔ آنے والی زندگی ذوقِ سفر کے ساتھ ہونی چاہیے۔ آنے والی زندگی بے ضرر ہونی چاہیے۔ آنے والی زندگی فائدہ رساں ہونی چاہیے۔
ایک دعا، خلوص کے ساتھ
کم از کم ایک خواہش تو ایسی رکھیے کہ جس میں آدمی سچا ہو، مخلص ہو۔ وہ کہے کہ مالک، میری یہ دعا سچی دعا ہے۔ اس میں میرا کوئی لالچ نہیں ہے۔ مجھے اپنے آپ سے ملوا دے۔ میرا اپنے آپ سے رابطہ نہیں ہوا، میں اپنے من میں نہیں ڈوبا۔ مجھے توفیق دے کہ میں اپنے آپ کو تلاش کرلوں۔ جب آدمی اپنے آپ کو تلاش کرلیتا ہے تو اس کی زندگی اللہ کی مخلوق کیلئے مفید بن جاتی ہے۔ اس کے ہاتھ اور زبان سے انسانوں کو فائدہ پہنچنا شروع ہوجاتا ہے۔
فیض پہنچائیے
زندگی میں کلیہ بنا لیجیے کہ سب کچھ بن جائیں گے، بے فیض انسان نہیں بنیں گے۔ درخت جب بے فیض ہو جاتا ہے اس کو بھی چولھے میں ڈال کر جلا دیا جاتا ہے۔ ہماری زندگی بے فیض نہیں ہونی چاہیے۔ یہ سودمند ہونی چاہیے، بے غرض ہونی چاہیے ،ہم سے جڑے لوگوں کیلئے آسانی ہونی چاہیے۔ اپنی زندگی میں ایک کام سوفیصد اس لیے کر یں کہ مالک، یہ کام میں اس لیے کررہاہوں کہ مجھے میر ا مقصد مل جائے۔ وہ چاہے روٹی کھلا نا ہی کیوں نہ ہو، وہ راستہ بتانا ہی کیوں نہ ہو، کسی غریب کی مدد کرنا ہی کیوں نہ ہو، خاص کر ایسے شخص کی مدد جس سے شکریہ بھی نہیں مل سکتا۔
مقصد کی تلاش ایک ایسا سوال ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے ہاں ’’ناں‘‘ نہیں ہے۔ آپ اللہ تعالیٰ کے حضور یہ سوال ضرور رکھیے۔ اس کا جواب آنا ہی آنا ہے۔ یہ واحد سوال ہے جس کا جواب فوراً آتا ہے۔ بعض اوقات لگتا نہیں ہے کہ فوری جواب آگیا ہے، لیکن زندگی میں کہیں آگے جاکر جب کسی لمحے پیچھے مڑ کر دیکھتے ہیں تو یاد آتا ہے کہ سفر وہیں سے شروع ہو ا ہے جس رات میں نے دعا مانگی تھی۔