• کوئی سوال ہے؟
  • 923009426395+
  • darulshaour.magazine@gmail.com
زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن  (تبصرہ)زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن  (تبصرہ)زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن  (تبصرہ)زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن  (تبصرہ)
  • صفحہ اول
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • قرآنیات
  • تاریخ و فلسفہ
  • تعلیم | تربیت
  • انتخاب
  • شخصیات | انٹرویوز
  • کالم
  • کتابوں پر تبصرے
  • یوٹیوب چینلز
    • “Hakayat O Rawayat”
      حکایات و روایات
    • “Darulshaour Audio Books”
      دارلشعور آڈیو بکس
    • آڈیوز/ وڈیوز
  • آن لائن کتابیں
✕

زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن (تبصرہ)

  • صفحہ اول
  • بلاگ
  • کتابوں پر تبصرے
  • زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن (تبصرہ)
خود اعتمادی بڑھائیے: سی گلبرٹ رین (تبصرہ)
فروری 4, 2022
عزت اور وقار سے جینا سیکھیں: شِو کھیڑا (تبصرہ)
فروری 4, 2022
Show all

زندگی کے 20 عظیم سبق: ہال اربن (تبصرہ)

اس کتاب میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ اچھا کیا ہے زندگی میں اور لوگوں میں، بالخصوص تم میں۔ یہ کتاب اُن داخلی وسائل کے بارے میں ہے، جو تمہارے پاس ہیں تو سہی لیکن ان کو تم استعمال نہیں کر پا رہے ہو۔ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد تمہاری چھپی اور سوئی ہوئی صلاحیتوں کو عیاں کرکے اور جگا کے تمہیں بہترین فرد بنانا ہے …… جو کہ تم بن سکتے ہو …… تاکہ تم زندگی سے مکمل طور پر لطف اندوز ہو سکو۔ مَیں نے یہ کتاب چار وجوہات سے لکھی ہے:
1۔ اس لیے کہ ہم کبھی اتنے چھو ٹے یا اتنے بڑ ے نہیں ہوتے کہ زندگی کے عظیم ترین سبق سیکھ نہ سکیں۔
دراصل مَیں نے یہ کتاب والدین کے لیے لکھی تھی تاکہ وہ اسے اپنے بلوغت کے ابتدائی مرحلے میں داخل ہونے والے بچوں کو دیں۔ وہ بچے جو ہائی سکولوں اور کالجوں میں پڑھتے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ کتاب ان بچوں کو بھی دی جا سکتی ہے جو ابھی بیس سال سے زیادہ لیکن تیس سال سے کم ہیں۔ بلاشبہ والدین نے یہ کتاب بچوں کے لیے خریدی لیکن انہوں نے اسے انہیں دینے سے پہلے خود بھی پڑھا۔ تب انہوں نے مجھے خط لکھنے شروع کیے، جن میں انہوں نے مجھے بتایا کہ ان کے خیال میں اس کتاب کو قارئین کے وسیع تر حلقے میں پہنچنا چاہیے۔ ان کا خیال تھا کہ میرا پیغام ہمارے بچوں کی تو ضرور مدد کرے گا تاہم ’’20 اسباق‘‘ آفاقی کشش کے حامل اور اتنے اہم ہیں کہ انہیں ہر عمر کے لوگوں تک پہنچایا جانا چاہیے۔ گو کہ مَیں دل سے یہی چاہتا تھا کہ میرا پیغام بچوں اور نوجوانوں تک پہنچے تاہم اپنی عملی زندگی کے تجربات کی روشنی میں مَیں نے دیکھا کہ انہوں نے درست لکھا تھا۔ حقیقت یہ ہے کہ اس کتاب کا پہلا خاکہ جن بالغ افراد نے پڑھا ہے، انہوں نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’ارے ، یہ تو ہمارے لیے بھی ہے!‘‘اس لیے کہ سکولوں میں یہ نہیں پڑھایا جاتا کہ ’’زندگی کیسے عمل کرتی ہے‘‘ اور یہ کہ ’’کون سی چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔‘‘
ہمارے سکول ایک بہت بڑی خدمت انجام دیتے ہیں۔ پہلے درجے سے لے کر گریجویٹ سطح تک کے تعلیمی اداروں میں ایسے کورس پڑھائے جاتے ہیں جو طلباء کے علم میں اضافہ کرتے ہیں اور انہیں بہت سے قابلِ قدر ہنر سکھاتے ہیں۔ اس سب کے باوجود نصاب میں ایک خامی، ایک کمی ہوتی ہے۔ وہ خامی، وہ کمی یہ ہے کہ ہم اپنے طلبا کو زندگی کے بارے میں کچھ نہیں پڑھاتے۔ ہم انہیں یہ نہیں پڑھاتے کہ زندگی کیسے عمل کرتی ہے۔ ہم انہیں یہ بھی نہیں پڑھاتے کہ کون سی چیز بنیادی اہمیت کی حامل ہے۔ زندگی میں کامیابی حاصل کرنے کے لیے ہمیں روایتی تعلیمی اداروں کے علاوہ ایسے اداروں کی ضرورت ہے جہاں ہمیں اس مقصد کے لیے درست ’’اوزار‘‘ مہیا کیے جائیں۔ ہمیں تعلقات بنانے کے لیے ضروری رویوں اور مہارتوں کو سیکھنے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں ذاتی اہداف کا تعین کرنے اور انہیں حاصل کرنے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں اپنی قدرو قیمت سے لطف اندوز ہونے کے لیے مدد کی ضرورت ہوتی ہے۔
چنانچہ مَیں نے خلا کو پُر کرنے کے لیے یہ کتاب لکھی ہے۔ اس کتاب کے لکھنے کا مقصد یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے اس بات کو سمجھیں جو کہ اہم ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا مقصد یہ بھی ہے کہ ہم اور ہمارے بچے یہ سمجھیں کہ اچھا کردار کیا ہوتا ہے۔ اس کتاب کو لکھنے کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ ہم اور ہمارے بچے یہ سمجھیں کہ کامیاب زندگی کے معنی کیا ہیں۔ اس لیے کہ ہم میں سے بیش تر کو یہ جاننے کے لیے مدد کی ضرورت ہے کہ ہم کتنے اچھے بن سکتے ہیں۔
چند سال پہلے کیلی فورنیا میں عزتِ نفس کے موضوع پر ایک کانفرنس منعقد ہوئی تھی۔ مجھے بھی اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا تھا۔ اس کانفرنس میں ایک ماہرِ نفسیات نے اپنے خطاب کے دوران بتایا کہ جب کوئی شخص اٹھارہ سال کی عمر کو پہنچتا ہے تو ایک لاکھ سے زیادہ مرتبہ اس کی تذلیل کی جا چکی ہوتی ہے۔ مجھے نہیں علم کہ اُسے اِس تعداد کا علم کیسے ہوا تھا تاہم اس کی بات حیرت انگیز نہیں تھی۔ یہ سچ ہے کہ ہماری بے عزتی بہت زیادہ کی جاتی ہے۔ اس کا آغاز ابتدائی عمر ہی سے ہو جاتا ہے۔ ہماری بے عزتی بے شمار لوگ کرتے ہیں اور یہ سلسلہ بلوغت تک جاری رہتا ہے۔
میر امقصد یہ تجزیہ کرنا نہیں ہے کہ ایسا ’’کیوں‘‘ ہوتا ہے۔ میرا مقصد فقط اس بات کی نشان دہی کرنا ہے کہ بدقسمتی سے یہ زندگی کی ایک سچائی ہے۔ مَیں نے یہ کتاب اس لیے لکھی ہے کہ میرے خیال میں انسانیت کے دوسرے رُخ پر توجہ دینے کے لیے ہمیں مدد کی ضرورت ہے۔ مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دنیا میں زیادہ لوگ قانون کی پابندی کرنے والے، محبت کرنے والے اور دوسروں کا خیال رکھنے والے ہیں۔ ہے یوں کہ وہ اس کی تشہیر نہیں کرتے۔ اچھا ہونا خبر نہیں ہوتی۔ مجھے اس بات کا بھی یقین ہے کہ ہم میں سے بیش تر لوگ اپنی قدروقیمت سے آگاہ نہیں ہوتے، اور خود کو ارزاں داموں فروخت کر دیتے ہیں۔ ہم میں اچھی خصوصیات ہوتی ہیں لیکن ہم ان سے آگاہ نہیں ہوتے، ہم میں داخلی سر چشمے ہوتے ہیں لیکن ہم انہیں دریافت نہیں کرتے، اور ہمیں مواقع دست یاب ہوتے ہیں لیکن ہم کبھی ان کا خوا ب تک نہیں دیکھتے۔
مجھے امید ہے یہ کتاب منفی باتوں پر زیادہ توجہ دینے والی دنیا میں چند مثبت باتیں لائے گی۔ زندگی میں اچھائی ڈھونڈنا ہماری سب سے بڑی خوشی بن سکتا ہے۔ اس لیے کہ پرانی سچائیاں کبھی فرسودہ وبے کار نہیں ہوتیں …… نئی نسل کے لیے بھی نہیں چند سال پہلے کی بات ہے مَیں نے کالج کے طلبا کے ایک گروپ سے ’’کامیابی کے حقیقی معانی‘‘ کے موضوع پر خطاب کیا۔ مَیں نے اپنی تقریر کے آغاز میں چند ایسے پیغامات کی نشان دہی کی جن کی ’’بمباری‘‘ ہم پر مستقلاً ہوتی رہتی ہے۔ مَیں انہیں آگاہ کرنا چاہتا تھا کہ میرا پیغام بالکل مختلف ہے۔ چنانچہ مَیں نے انہیں یہ بتانے سے شروعات کی کہ ’’میرے پاس کیا نہیں ہے۔‘‘ مَیں نے انہیں بتایا کہ میرے پا س کامیابی حاصل کرنے کا کوئی ’’راز‘‘ نہیں ہے، نہ ہی کامل مسرت کے حصول کا کوئی ’’جادوئی کلیہ‘‘ (Magic Formula) ہے، نہ ہی اس دنیا کو جنت بنانے کی ’’حیران کن نئی تیکنیک‘‘ ہے، امیر اور طاقت ور بننے کا کوئی طریقہ ہے اور نہ ہی اپنی ہر خواہش پوری کرنے کا کوئی ’’منفرد طریقہ‘‘ ہے۔ اس کی بجائے مَیں نے ان اقدار کی بات کی جو وقت کے ہر معیار پر پورا اتر چکی ہیں یعنی احترام، مہربانی، دیانت داری، دوسروں کو سراہنا، اچھی خواہشات، محنت، ایفائے عہد اور اچھا انسان بننا!!
میرا مؤقف یہ تھا کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا نہ تو کوئی شارٹ کٹ (Short-Cut) ہے، نہ آسان راستہ اورنہ ہی کوئی نیا طریقہ۔ کامیابی تو محنت سے حاصل ہوتی ہے۔ مَیں یہ دیکھ کر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کہ وہ طلبا میری یہ بات سن کر بھی مزید باتیں سننے پر آمادہ تھے۔ ان میں سے ایک نے کہا، آپ جانتے ہیں ، آپ نے کوئی ایسی بات نہیں کی، جو مَیں پہلے نہ سن چکا ہوں تاہم آپ نے ان ساری پرانی باتوں کو اس انداز سے یکجا کر دیا ہے کہ یہ زیادہ بامعنی ہو گئی ہیں۔ان دونوں نے مجھے یہ فیصلہ کرنے میں مدد دی کہ مجھے یہ کتاب لکھنی پڑے گی۔

کتاب خریدنے کے لیے ہماری ویب سائٹ کے لنک پر جائیے یا درج ذیل نمبرز پر کال اور واٹس ایپ میسیج کیجئے. 03009426395

Life’s Greatest Lessons Of 20 Things زندگی کے 20 عظیم سبق – Dar ul Shaour

مناظر: 201
شئیر کریں
vicky
vicky

Related posts

فروری 8, 2022

آپ پیدائشی امیر ہیں: بوب پروکٹر (تبصرہ)


مزید پڑھیے

جواب دیں جواب منسوخ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

تلاش کریں

✕

اقسام

  • قرآنیات
  • سیرت النبی
  • امروزیہ | آج کی تحریر
  • کالم | حالاتِ حاضرہ
  • سیاست | معیشت
  • شخصیات | انٹرویوز
  • تعلیم | تربیت
  • سیلف ہیلپ | موٹیویشن
  • خواتین کارنر | صحت
  • اردو ادب | لٹریچر
  • انتخاب | نادرتحریریں
  • تاریخ،فلسفہ | تصوف
  • محمد عباس شاد کی تحریریں
  • کتابوں پر تبصرے
  • Uncategorized

تازہ ترین پوسٹس

  • 0
    پیغام ابراہیم
    جولائی 12, 2022
  • 0
    عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
    جولائی 11, 2022
  • 0
    مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
    جولائی 8, 2022

حالیہ تبصرے

  • جون 7, 2022

    M Abbas Shad commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

  • جون 5, 2022

    امیر حمزہ وٹو commented on مہنگائی اور نظام کا اصل چہرہ

Array

اہم ضوابط

اکاؤنٹ

پالیسی و ترجیحات

اغراض و مقاصد

نئے لکھنے والوں کے لئے

تازہ تحاریر

  • پیغام ابراہیم
  • عید الاضحیٰ کا مقدس فریضہ اور ہمارے رویے
  • مولانا عبید اللہ سندھی مرحوم و مغفور
  • تبدیلیٔ حکومت آپریشن نے ملکی نظام اور اس کے عناصر کا نقاب اتار دیا
  • سرسید اور حقوق نسواں

رابطہ

موبائل نمبر : 03009426395

فون نمبر : 04237239138

ای میل : da******************@***il.com

پتہ: دارالشعور 37.مزنگ روڈ لاہور

تعارف

"دارالشعورمیگزین" دارالشعور پبلیکیشنز کا ایک ذیلی پلیٹ فارم ہے۔ جو دارالشعورپبلیشرز اور مطبوعات مکی دارالکتب کے ترجمان سہ ماہی مجلے "الصدق" لاہورکی ترقی یافتہ شکل اور ماہنامہ رسالہ "دارالشعور،لاہور"کا ایک متبادل میگزین ہے۔ جو اب ہارڈ کاپی کے بجائے صرف سوفٹ کاپی کی شکل میں آن لائن شائع ہوتا ہے۔اور اس میں کتابوں پر تبصروں اور تعارف کے علاؤہ مختلف سماجی ،سیاسی اور علمی موضوعات پر آپ کی خدمت میں معیاری مضامین پیش کئے جاتے ہیں۔ جو دارالشعورکے ہم خیال منصفین کی قلمی کاوشوں پر مشتمل ہوتے ہیں۔ آپ بھی ہماری آواز کو توانا بنانے کے لیے دارالشعور میگزین میں اپنے مضامین،تجزیے اور تبصرے بھیج کر ہماری ٹیم کا حصہ بن سکتے ہیں۔ آپ دارالشعور پبلیکیشنزکی آفیشل ویسائٹ کو نیچے دیئے گئے لنک کو کلک کرکے ویزٹ کرسکتے ہیں۔ www.darulshaour.com

دارالشعور میگزین © 2022
اکاؤنٹ